Monday, May 13, 2013

ٹو دا پرائم منسٹر آف فیس بک

ہر چیز کی ایک حد ہوا کرتی ہے۔ گیارہ مئی کے بعد دو دن تک اپنے انصافی دوستوں کے قرض اتارنے کے بعد جب میں سنجیدہ ہو ہی رہا تھا تو ایک عمرانی محترمہ نے اسی مخصوص انداز میں مجھے  روندنے کی کوشش کی جو گذشتہ دو سال سے سوشل میڈیا پہ ان لوگوں کی مخصوص پہچان ہے۔  کم از کم مجھے اپنے نظریات کی بنا پہ اسی قسم کے ردِ عمل کا سامنا رہا ہے۔ ان کی یہ چڑ مشرف تک جا پہنچی ہے، جہاں اسکا نام لیا وہیں یہ پٹواری پٹواری چلانے لگے۔ اور شاید یہی رویہ مجھے بلاگنگ کی طرف واپس لایا ہے۔ ورنہ جاننے والے جانتے ہیں کہ ہر ای میل میں ایک آدھ نامکمل نامکمل کالم، کہانی، انشائیے کا مسودہ نظر ثانی  و ثالث بھیجنے کے باوجود میں بڑی ثابت قدمی سے  بہانے پہ بہانہ گھڑتا چلا جا رہا تھا۔ وجہ وہی، میری نظر میں یوں بلاگ کی مدد سے دو تین لوگوں تک ایک ہی بات پہنچائے چلے جانا اپنے اور قاری کے وقت کا ضیاع ہے۔ مجھ سے بہتر لوگ یہ کام بڑے  اچھے طریقے سے کر رہے ہیں اور انکا  حلقہ قارئین بھی وسیع  ہے سو مجھے یہ سب ۲۰۱۱ سے وقت کا ضیاع ہی لگتا رہا ہے۔ اب بھی میں اپنیا اور اپنے جیسا ہر بلاگ صمیمِ قلب سے وقت کا ضیاع سمجھتا ہوں ، مگر بات یہ ہے کہ یوں تو یونہی سہی۔ ہمارے پاس بیچنے کو کچھ تو ہے۔ چلو جواب ہی دے لیں گے۔ 

تو آئیے دعا کریں خدا عمران خان صاحب کو ایک سیاسی اتالیق عطا کرے۔  اور انہیں اس سے کچھ سیکھنے کی توفیق بھی عطا ہو۔ میرا خان صاحب کے دیوانوں  سے جو حضرت صاحب کی کوتاہ بینی پہ اختلاف ہے وہ جانے دیجئیے اس پہ بعد میں بات کرتے ہیں۔ سردست موصوف کی عظیم الشان حماقت دیکھئیے۔ حضرت صاحب نے خیبر پختونخواہ میں ۳۵ نشستیں جیت لیں مگر یہ جیت انکو اصل سمت میں محرک کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پہلے چوبیس گھنٹے تو حضرت نے سو کر گزار دئیے۔ ورنہ دھاندلی والے پیغامات کے آخر میں صرف پانچ سیکنڈ میں یہ کہا جا سکتا تھا، ہم خیبر پختونخواہ میں اپنے اتحادیوں کی مدد سے حکومت بنائیں گے۔  اسکے بعد مولانا محرک ہوئے اور یوں انکو بھی مجبوراً بیان داغنا پڑا۔  اسکے بعد بھی ابھی تک حضور نے وزیرِ اعلیٰ کا نام نہیں بتایا۔ جبکہ اس ماحول میں موصوف کو راتوں رات محرک ہو کر جماعتِ اسلامی اور آزاد امیدواروں سے یاری گانٹھنی چاہئیے تھی۔ اب ہو گا یہ کہ  جماعتوں کی تو بات ہی چھوڑئیے، صرف آزاد امیدواروں سے فرداً فرداً سودا کرتے ہی جناب اور انکے رفقاٗ کو دانتوں پسینے آئیں گے۔ ہر ایک اپنی نشست کو سونے سے ڈھلی قرار دے کر اسکی پوری قیمت وصول کرے گا۔ وہ تو نواز شریف صاحب نے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکے حقِ حکومت کے بارے میں بیان داغ دیا ورنہ اب تک انکو عزت کے لالے پڑ چکے ہوتے کیونکہ مولانا کی تو ایک  نشست کسی کے قابو میں نہیں آتی یہاں تو وہ ۱۵ پشاور میں  ۶ کوئٹہ میں اور ۳یا  ۴ مرکز میں گانٹھ کر بیٹھے ہیں۔ ( شاید یہی چیز نوز شریف کو بھی روک رہی تھی)۔۔ یہاں آپ کو شریف برادران کا آدھی رات کو پریس کانفرنس کرنا سمجھ میں آئے گا۔ اسی کانفرنس نے سرکاری نتائج آنے سے پہلے ۴ یا ۵ نشستیں انکے گھر پہنچا دی ہیں۔ اور طالع آزما بھی چپکے بیٹھنے پہ مجبور ہو گئے۔ 

حضرت صاحب شاید ابھی تک وزیرِ اعظم والے خواب سراب سے پیچھا نہیں چھڑا سکے۔ پہلے ایک حلقے میں دھاندلی دھاندلی کرتے رہے، وہاں جیت گئے تو سعد رفیق والا حلقہ یاد آ گیا۔ اور  وہاں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے بعد جناب کو ۲۵ حلقوں میں انتخابات دوبارہ چاہئیں۔ حد ہوتی ہے حماقت کی بھی۔ شاید ہاسشمی قصوری اینڈ کو انکو کچھ نہیں سمجھا رہے کیونکہ انکے خواب سراب کی تعبیر معلق پارلیمان وجود میں لائے گی۔ جہاں یہ حکومت کریں یا اپوزیشن، پیپلز پارٹی نما چلیس پچاس پلاوٗں کے ہر حال میں مزے رہیں گے۔ تین چار ماہ بعد انہی پچاس کے قریب نشستوں نے صدرِ محترم کو دوبارہ منتخب کرانا ہے ۔ اور جناب اگر فیس بک لائکس کی بنا پہ ہی آپکا خیال ہے کہ  بلے کو لگنے والے ٹھپے کسی دھاندلی یا غلط فہمی کی وجہ سے شیر پہ لگ گئے تو، دوستو جسٹن بیر نام کا ایک لونڈا اور لیڈی گاگا نام کی ایک لونڈیا کڑوڑوں لائکس رکھتے ہیں فیس بک پہ۔ کیا انکو لا کر وزیرِ اعظم و صدر بنا دیا  جائے؟

6 comments:

  1. Welcome back :)
    btw bieber gaga etc are being accused of faking up twitter fans chk out this blog on yahoo
    http://ca.omg.yahoo.com/blogs/the-juice-celeb-news/fake-belieber-epidemic-why-justin-gaga-rihanna-don-163510630.html
    Credibility of social media still remains in question :)

    ReplyDelete
  2. بہت عمدہ لکھا ہے محترم۔
    لیکن کچھ زیادہ لتاڑ دیا ہے خان صاحب کو۔
    وہ اب ایسے بھی سیاسی نابالغ نہیں۔
    دھاندلی دھاندلی کا شور مچا کر وہ دراصل کے پی کے میں اپنی راہ صاف کرنے کے لئے دباؤ بڑھا رہے ہیں، اور یہ عمدہ سیاسی سٹریٹجی ہے۔
    ورنہ مولانے کا تو آپ کو علم ہی ہے یعنی ڈیزل صاحب۔ وہ اب تک نون شون کو جھانسا دلا کر الو سیدھا کر چکا ہوتا۔

    خیر خوشی ہوئی کہ کافی عرصے بعد کچھ لکھا تو آپ نے۔

    ReplyDelete
  3. اچھا لکھا ہے لیکن ابھی کسر رہ گئی ہے ۔ بلے باز کی اعلٰی ظرفی دیکھیئے کہ دنیا نے نواز شریف کو فاتح مان لیا مگت بلے باز ماننے کو تیار نہیں اسی وجہ سے ابھی تک اُسے فون کر کے مبارک نہیں دی ۔ البتٰہ دھرنا دینے والوں کی ہلہ شیری اور دھاندلی کا شور مچانے کیلئے اُس کے پاس وقت اور صحت دونوں ہیں ۔ رہی بات اصل کی تو دھاندلی کے ثبوت الیکشن کمیشن یا ٹرِبیونل کو کیوں پیش نہیں کرتے ؟

    ReplyDelete
  4. استاد جی کچھ تنا کامیاب ٹرک نہیں دکھا پائے خان صاحب۔۔ خیبر پی کے حکومت تو انہی کی بننی تھی۔ اگر اس بات کا اعلان بروقت کر دیا جاتا تو کیا مضائقہ تھا؟۔۔ اور اب جو کرتب اعلان کے بعد ہو رہے ہیں وہ کس قسم کی سیاسی بلوغت کی علامت ہے؟ پہلے پرویز خٹک اور پھر اسد قیصر کا نام۔ صر بارہ گھنٹے کے اند۔۔۔۔۔ دعا ہی ہے کہ خان صاحب جذبات میں آ کر این اے ۵۶ چھوڑنے کا فیصلہ نہ کر بیٹھیں۔۔

    اور دھاندلی دھاندلی اب شور سے نڑھ چکا ہے۔ خان صاحب عوام کو بیوقوفانہ حد تک چارج کر چکے ہیں۔

    ReplyDelete
  5. افتخار بھائی اب تو خونی انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں انکے لونڈے۔ میں حیران ہوں یہ کس قسم کا انلاب ہے جو ڈی ایچ اے کے باسی لائیں گے، جس کے لیڈر عالیشان گھروں میں رہتے ہیں اور چھٹیاں ملک سے باہر گزارتے ہیں ۔ اور اس انقلاب کے سپورٹر ڈالر پاوٗنڈ یورو وغیرہ کماتے ہیں۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ کیس دھانلی ہوئی ہے جس کے بعد حامد خان اسی ہزار کے قریب ووٹ لے گئے۔ ایک اسی قسم کی دھاندلی کی شکایت پہ جب ری کاوٗنٹنگ ہوئی تو شاید این اے ۳۴ سے جماعتِ اسلامی کے امیدوار کی لیڈ ۱۴۰۰ سے ۳۴۰۰ ہو گئی۔

    خان صاحب ۹۰ کی دہائی والی سوچ کے ساتھ ستر کی دہائی والے بیانات دے کر قوم کو الو بنائے چلے جا رہے ہیں۔
    انکی سیاسی بصیرت اور وسعتِ قلبی کا مظاہرہ تواسی دن ہو گیا تھا جب انہوں نے عیادت کے لیے آنے والے شہباز شریف کو ملے بغیر واپس کر دیا۔۔

    ReplyDelete
  6. Thank you very much Unknown G for your time

    Yes, you are spot-on. I am afraid fb can't serve as benchmark,

    ReplyDelete