Thursday, June 17, 2010

ہم بنے مصنف

ہم بنے مصنف

یادش بخیر، صاحبو بے خبری سب سے بڑی عیاشی ہے۔ چین کی بنسی سے زیادہ سریلا ساز تو حضرت امیر خسرو بھی نہ ایجاد کر سکے۔ سو ہم اپنی بے خبر دنیا میں مست تھے۔ سالانہ چھٹیاں تھیں، زندگی مزے سے بسر ہو رہی تھی، صبح سویرے دو بجے اٹھتے، بس جمعہ کے روز ذرا جلدی اٹھنا پڑتا کہ جمعہ و عیدین چھوڑ کے بالکل ہی کافر ہونا ہمیں منظور نہیں اور آج کل گلے میں اپنی نام و نسب کی تختی بھی نہیں لٹکائی جا سکتی سو چہرے کے لیے مقدور بھر ہی سہی مگر نور کا انتظام ہمیں خود کرنا تھا اسی واسطے جمعہ کی نماز ہم نے کم از کم تعطیلات کے دور کے لیے خود پہ لازم کر لی تھی۔

سو بات ہو رہی تھی کہ صبح سویرے اٹھتے ٹٹول کر عینک تلاش کرتے تو ہاتھ سگرٹوں پر جا پڑتے، آنکھ کھلتے ہی بھرپور ناشتہ ہوتا۔ اس کے بعد نئے سرے سے عینک تلاش کی جاتی جو لیپ ٹاپ سے بغلگیر ملتی ۔ اب لیپ ٹاپ پہ ہاتھ پڑے اور ون اردو کی یاد نہ آئے کم از کم تعطیلات میں یہ نا ممکن ہے۔ سو عینک ناک پہ جما کر لیپ ٹاپ چلایا جاتا اور بے وزنی کے روزمرہ تجربات شروع کرنے چل پڑتے۔ امریکہ بہادر خوامخواہ ڈالر کو پانی کی طرح بہا کر اس قسم کے تجربات کر رہا ہے ہمارے مالک مکان سے رابطہ کرے وہ چند پاؤنڈز میں ایسی مخصوص سیٹوں کا بندو بست کر سکتا ہے جو آپ کو صبح سویرے بے وزنی کی کیفیت میں پہنچا سکتی ہیں۔۔۔ عاقل را اشارہ کافی است۔

سو یوں ہماری روشن صبح کا آغاز ہوتا۔ کافی کے جمبو سائز مگ کے ساتھ لیپ ٹاپ کے سرہانے آ بیٹھتے۔ اس کے بعد سورج میاں سے ہماری اگلی ملاقات تب ہی ہوتی جب وہ جانے کی جلدی میں ہوتے اور ہم سگریٹ خریدنے اپنی گلی کی نکڑ پہ طلوع ہوتے، ویسے بھی تعطیلات کے زمانے میں ہمیں سورج میاں سے بالمشافہ ملاقات کی کوئی خواہش نہیں ہوتی کہ باقی 344 دن ہماری جان کو آئے رہتے ہیں۔ نجانے یہ ان حضرت کو اس فقیر سے کس قسم کا بغض ہے کہ ہمیشہ اپنا ٹائم ٹیبل ایسا بناتے ہیں کہ عاجز بلبلا اٹھتا ہے۔ واللہ اگر ہم اس قسم کی آزاد منش نوکری پہ ہوتے تو کم از کم دوپہر دو بجے کام پہ پہنچتے۔ اب انہیں کون بتائے کہ دنیا کا نظام باہمی میل جول سے چل رہا ہے۔ خیر ہم اس پر بھی
خوش تھے وہ اپنے مدار میں رہتے اور ہم اپنے۔

مگر صاحبو دنیا میں دوام کس شے کو ہے۔ ہر چیز کو فنا کے گھاٹ اترنا ہے۔ کچھ دن گزرے تھے کہ ہمارے معمولات کارکنانِ قضا و قدر کی نظروں میں آ گئے۔ ایک رات یہی کوئی پانچ بجے کا وقت ہو گا ۔ نیند کی دیوی بانہیں وا کئے ہمیں لبھا رہی تھی، سونے سے پہلے آخری بار ون ادو پہ لاگ ان ہوئے تو شہزاد بھائی کا پیغام حسبِ معمول بہتر سے بہتر حال میں ملا۔ یا اللہ خیر۔ دھڑکتے دل کے ساتھ میسج کھولا تو آگے بھائی اس اطلاع کے ساتھ موجود تھے کہ ہم بھی مصنف ہیں۔

ہمیں پہلے تو اپنی آنکھوں پہ یقین نہ آیا۔ میسج کو ریفریش کر کے پڑھا تو شہزاد بھائی پہ یقین نہ آیا۔ اے میرے پروردگار لوگ اس قسم کا پریکٹیکل جوک کیوں کرتے ہیں۔ لمبا چوڑا بہانوں سے بھرا میسج لکھا۔ صاف انکار بھی نہ کر سکتے تھے کہ جنگل میں رہ کر ہاتھی کو ناراض کرنا ایسے ہی ہے جیسے بندہ گرین کارڈ لے کر بنجمن نتن یاہو کے کے خلاف کالم لکھنا شروع کر دے۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہے، بھائی کا انداز اتنا شائستہ ہے کہ ڈانٹ بھی رہے ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ٹھمری سنا رہے ہیں۔ سو کم از کم ہم تو سگریٹ، چاۓ اور شہزاد بھائی کو صاف انکار نہیں کر سکتے۔ اب آپ سے کیا پردہ ہم خود میں اس جوہرِ قابل کی دریافت پہ کچھ سرشار بھی تھے اور اپنی بے خبری پہ شاید زندگی میں پہلی بار نالاں بھی تھے۔ یہ تصور ہی خاصا امید افزا تھا کہ اب ہمیں ون اردو پہ ایک دو ملی گرام سے زیادہ گھاس میسر آیا کرے گی۔ مگر پھر بھی اس بات کا قوی امکان تھا کہ ہم سے رائٹرز فورم پہ وہی کام لیا جاۓ جو ہمارے بچپن میں گاۓ سے لیا جاتا تھا، ممضمون لکھنے کا۔۔۔۔۔ یہ ایک فریدوں ہے۔ اس کی دو ٹانگیں اور چار آنکھیں ہیں وغیرہ وغیرہ۔

تو دوستو انہی خیالات میں غلطاں و پیچاں "یہاں" پہ ڈرتے ڈرتے کلک کیا۔ اصل میں ڈر ہمیں اس بات کا تھا کہ کہیں واقعی گوشہ مصنفین میں مقابلہ مضمون نویسی نہ برپا ہو اور کسی ہونہار مصنف نے یہ دعوٰی کر رکھا ہو کے وہ اب کہ فریدون پہ مضمون لکھے گا۔ سو ہمیں ذرا دیر کے لیے گھیر کے لانے کو کہا گیا ہو کہ مضمون لکھنے میں آسانی رہے گی۔ آپ اگر ایک نو دریافت شدہ مصنف پہ اس قسم کا بلکہ کسی بھی قسم کا مضمون اس کے مرنے سے پہلے لکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو اندازہ نہیں اس کے جملہ اعضاۓ رئیسہ و غیر رئیسہ کس قسم کا ردِ عمل ظاہر کر سکتے ہیں۔

ہمارا پہلا شک بھوت بھائی پہ تھا کہ موصوف ہمیشہ بہت ہی دور کی کوڑی لاتے ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ موڈز نے انہیں بزورِ بازو فورم کی مارکیٹنگ سے روک رکھا ہے ورنہ موصوف اپنے نصف قطر میں موجود تمام مینڈکوں اور چھپکلیوں پہ جلی حروف میں "ون اردو کی فخریہ پیشکش" پینٹ کرنا چاہ رہے تھے۔ پھر خیال آیا کہ ان سے ہمارا ایک مخصوص لحاظ کا رشتہ ہے وہ تو نہیں ہو سکتے۔ آدمی کمال کے ہیں ۔ کئی زبانیں بول سکتے ہیں جن میں اردو،پنجابی، انگریزی، جرمن۔ اور بکروں کی زبان خاص طور پہ قابلِ ذکر ہیں۔ ہر زبان میں جرار کا لفظ بڑی مہارت سے ادا کر سکتے ہیں۔ بکروں کو دوست مانتے ہیں سو بکری کا بہت احترام کرتے ہیں۔ گاندھی جی پہ ایک عرصہ تاؤ رہا کہ ان کے دوست کی بیگم پہ ڈورے ڈالتے تھے۔ وہ تو بھلا ہو اس شریف آدمی کا جس نے انہیں یقین دلایا وہ والی بکری کوئی اور تھی،

خیر گوشہ مصنفین میں ڈرتے ڈرتے داخل ہوئے تو تصور کی آنکھ سے یہ مناظر دیکھے۔ شہزاد بھائی کی سنجیدہ آواز میں ہماری آمد کا اعلان ہوا۔ الاماں اتنی تالیاں شاید ہی ہم نے کبھی سنی ہوں، بڑی مشکل سے اپنے دونوں ہاتھ جیبوں میں ڈالے تو تالیاں ختم ہوئیں۔ ساتھ ہی کسی نے ہمیں زبردستی جھکایا اور ہمارے گلے میں ایک ہار طوق کی طرح ڈال بلکہ لٹکا دیا جس پہ سالگرہ مبارک تحریر تھا۔ ابھی ٹھیک طرح خوش بھی نہ ہو پائے تھے کہ کسی اور نے وہ ہار اتار لیا ساتھ ہی آواز آئی سنبھال کے رکھنا ابھی اور لوگ بھی آنے والے ہیں۔

ابھی ہم یہیں تک میل ملاقات کر پائے تھے کہ اپنے پاؤں پہ ایک اور کلہاڑا مار بیٹھے ۔ گوشہ مصنفین میں ہر طرف گرماگرم بحث جاری تھی کہیں بھوت میاں بلڈوزر لے کر تجاوزات پہ چڑھ دوڑے تھے تو کہیں ٹیم بھائی و ہمنوا سیکنڈ ہینڈ بلاگز کو نیا کر کے بیچنے کے گر سکھا رہے تھے سو ہم بھی جوشِ تصنیف میں ایک بحث میں حصہ لے کر شامت کو خالہ جان بول بیٹھے۔ پھر کیا تھا ہم سے ٹکٹ یعنی تحریر کا مطالبہ ہونے لگا۔ اب ہاتھ پاؤں پھول چکے تھے اس لیے دوڑ بھی نہ سکے۔ سو یہ تحریر آپ کے سامنے ہے

1 comment:

  1. wahhhh!.... kia rawani hai.... mashaAllah....

    ReplyDelete