Saturday, December 04, 2010

نیلی

رنگوں کی دنیا نرالی ہے۔ انسانوں کی طرح رنگ بھی خوشی غمی جلاپے اور بڑھاپے کا شکار ہوتے ہیں، انسانوں کی ہی طرح اپنی ذات میں الگ الگ ہیں۔ مثلاً میرے تکیے پہ سفید رنگ کا جو غلاف ہے اس پہ میرا پسینہ اور بال گرنے کے باعث ایک نقش بنتا ہے جو اسے دنیا کے تمام سفید رنگوں سے ممتاز کرتا ہے اور اس کی سفیدی میں ایک خشک سے بھورے رنگ کی تار رخنہ ڈال رہی ہے۔ بے پناہ رنگ میں اگر رخنہ ڈال دیا جائے تو اس کی عفت پہ داغ لگ جاتا ہے اور پھر اس رنگ کا خریدار بازارِ دنیا سے غائب ہو جاتا ہے۔ اسے صرف وہی سہارہ دے تو دے جس نے اس کی ذات میں رخنہ ڈالا ہو ورنہ اس کا نصیب رنگریز کا دوارہ ہی ہے۔ جہاں جا کر رنگوں میں من و تو کا فرق مٹ جاتا ہے۔ ہر رنگ وہاں سے دھل دھلا کر نکلتا ہے۔ اس کے بعد رنگ کی اپنی شخصیت ختم ہو جاتی ہے۔ اور رنگ کے نام کے ساتھ رنگریز کا نام جڑ جاتا ہے۔۔

میں کہہ رہا تھا کہ رنگ اپنےآپ میں جدا ہوتا ہے۔۔ الگ۔۔ قبیلے کی طرح، نسل کی طرح۔۔۔ جس طرح اولادِ آدم میں مختلف رنگوں، چہروں نے اپنے اپنے الگ گروہ بنالیے۔ سفید رنگ والے اپنی دنیا بسانے مٖغرب کے برفزاروں کی طرف چل پڑے، کالوں کو افریقہ کی جھلسی ہوئی زمین سے رزق اور گرماہٹ نصیب ملی۔۔ چپٹوں کو ہمالہ کی چوٹیوں نے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ بعینٰیہ اسی طرح سب رنگ پہلے ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ اولادِ آدم کی طرح سب کی خصلتیں اور شکلیں جدا جدا تھیں۔۔ ان میں سفید تھا، اپنی ازلی پاکیزگی میں گم۔ دھیرے دھیرے بولتا ہوا۔۔ سرخ تھا ہر ایک کے سر چڑھتا ہوا، لڑاکا مگر چنچل۔ سیاہ تھا اسرار اور جاہ و حشمت میں کی تصویر۔۔۔۔ پھر ان رنگوں کی علیحدگی کا حکم ہوا۔ سو یوں رنگ بھی اپنی اپنی خصلتوں سمیت قبائل میں بٹ گئے۔۔



ان میں نیلا بھی تھا ۔ بردبار اور متحمل۔ مددگار و معاون۔ مہمیز لگانے والا۔ اس کی زرد کے ساتھ خوب جمتی۔ پھر رنگوں کو جب انسانوں سے میل جول بڑھانے کا حکم ہوا تو یہ انسانوں کی دنیا میں بھی آنے لگے۔ ان کی دوستی ہوئی اور خصلتوں کے مطابق دوست چنے گئے۔۔۔ نیلے کی دوستی بھی آدم کے ان بیٹوں بیٹیوں سے ہوئی جو اسی کی طرح تھے۔۔۔ مددگار، بردبار، اپنے حال میں مست۔۔ دنیا کو اپنی نظروں سے دیکھنے والے، متجسس۔ اپنے قوانین بنانے والے

ـــــــــــ

حوا کی ایک بیٹی کا نیلے سے میل جول ہوا جو بڑھتا ہی رہا۔۔کہتے ہیں خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، مگر یہاں تو نیلے کو دیکھ کر نیلی رنگ پکڑ رہی تھی۔ اگر رنگوں میں جنس کا تصور انسانوں کی طرح ہوتا تو یہ لڑکی مونث نیلا ہوتی، مگر کیا ہے کہ ایک تو وہ لڑکی انسانوں کی دنیا سے ہے اور دوسرے رنگوں میں جنس کا وہ تصور نہیں۔ سو نیلا بھی اس لڑکی پہ اپنا آپ لٹانے لگا۔ اور نیلی جو پہلے ہی نیلے کی طبیعت پہ تھی سیر سے سوا سیر ہو گئی۔۔ معاون، اکیلی، ہٹیلی اور حال مست۔۔بردبار اور محبتی، نک سک سے تیار ہو کر ہانڈی چولہا کرنے لگتی۔ مگر ہمیشہ اپنی مرضی سے پکاتی، سارا گھر مرچوں کو رو رہا رہا ہے تو اگلے دن تاؤ میں آ کر سبزیاں ابال ڈالتی اس کا بس چلے تو ہر شے پہ نیلا رنگ پھیر دے۔۔

نیلی سفید پیدا ہوئی تھی۔ متوسط طبقے کے اس گھر میں جو مٹھائی آئی نیلی۔ اس برفی جیسی تھی۔ رنگداروں کے گھر پوری قیف تھی رنگوں کی۔ سرخ، سبز، زرد، سفید۔ تھا اور سیاہ۔ گھر سفید اور سیاہ نے مل کر بنایا تھا جس کا رنگ سرمئی تھا۔ جہاں سیاہ کو اپنی حدود کا پتہ تھا اور سفید کو حقوق و فرائض کا۔ سفید قدرتی طور پہ ہم رنگ ہونے کے باعث سفید کے زیادہ قریب تھی۔ یوں گھر کا سرمئی جھنڈا مزید مائل بہ سفیدی ہو گیا۔

سفید نیلی بننے سے پہلے بہت عرصہ سفید ہی رہی۔ ہر چیز کو معصومیت سے منعکس کرنے والی۔ ہنستی ہوئی۔ رنگ بکھیرتی ہوئی۔ ۔۔۔۔پھر بڑے سفید کا بلاوا آ گیا اور پرچم مکمل سیاہ ہو گیا۔۔۔۔ وقت کی ہوا گھر کے پرچم پہ مختلف رنگوں کےحاشیے اتارتی لپیٹتی رہی۔ سفید پہ بھی اب سیاہی غالب آنے لگی تھی جس میں ایک حصہ وقت کی آندھی کے ساتھ آنے والے گرد و غبار کا بھی رہا۔ رفتہ رفتہ سفید پہ ایک اور رنگ چڑھنے لگا۔ اب وہ سفیدو کہلانے لگی تھی۔ پھر رنگوں کی دنیا سے نیلا رنگ کسی انسان کی تلاش میں آیا اور یہ لڑکی اسے عجیب سی لگی۔ سو وہ اسے نیلی کر گیا۔ یوں سفید نیلی کہلانے لگی۔

ـــــــــــ

اب نیلی، نیلی ہے۔ سواسیر۔ خاموشی سے پڑھتی لکھتی تھی پر اب بحث کرتی ہے۔ زبان سے تڑاخ مارتی ہے۔ کتابوں سے ڈھڑا دھڑ چاٹی ہوئی دانش لوگوں کے منہ پہ تھوکتی ہے۔ تصوف اور فلسفے کا شوق ہے مگر بات لمبی ہو جائے تو پسینے چھوٹنے لگتے ہیں اور نماز کی نیت باندھ لیتی ہے۔ اپنی ہٹ میں سیدھا بھاگتی ہے اور فرار ہو کر اسی گھر کا دروازہ پناہ کے لیے جا بجاتی ہے جہاں جانے سے بچنے کے لیے فرار ہوئی تھی۔

نیلی میں وسعت کی خواہش اور جذب کرنے کا جذبہ ازل سے بھرا ہے۔ آرٹ، اور کتابوں کو کھوجنے سے دل بھرے تو دنیا جہان کے گرمائی سرمائی مقامات کی تصویریں دیکھ دیکھ آہیں بھرتی ہے اور پھر انقلابِ فرانس دیکھنے کی دعائیں مانگنے لگتی ہے کہ آرٹ کو جوان ہوتے ہوئے دیکھ سکے۔ نہیں جانتی اگر اس وقت ہوتی تو لازما کسی تلوار کی پیاس بجھاتی۔

نیلی قدرتی طور پہ دبلی پتلی تھی۔ اور جب نیلین ہوئی تو اور بھی دبلی ہو گئی ہر وقت جتی رہتی۔ مگر کرتی اپنی مرضی۔ کمرے کی دیواریں، پردے، میز پوش غرض ہر شے کو نیلا کر لیا تھا۔۔صبح نیلے تکیے سے سر اٹھا کر نیلا پردہ ہٹاتی ہے اور نیلی چپل پہن کر نیلا ڈوپٹہ اوڑھتی ہے اور دن کرنے نکل پڑتی ہے۔رات گئے کتابیں پڑھتی ہے اور سیاہ کی چاپ سنتے ہی بتی بجھا کر نیلے کمبل میں دبک جاتی ہے۔۔۔۔

تمام تر ہٹ اور بغاوت کے باوجود سیاہ سے نیلی کی جان جاتی ہے۔ شاید اسے ڈر ہے کہ جس طرح وہ سفید سے نیلی ہوئی، اسی طرح ایک روز سیاہ ہو جائے گی۔ اس تغیر سے بچنے کی پوری کوشش کرتی ہے۔ سیاہ کی بات مانتے مانتے بھی اپنی دلیل اس میں شامل رکھتی ہے کہ مبادا آنکھ بند کر کے عمل کرنے سے کسی دن سیاہ ہی نہ ہو جائے، خود اطمینانی کی ایک دلیل۔

نیلی کے دوستوں کے کئی دائرے ہیں۔ نیلے دوست، سفید دوست اور رنگ برنگے دوست۔ سفید دائرہ اسے دورِ سفید کی یاد دلاتا رہتا ہے تو وہ خوب کھل جاتی ہے، نیلے دائرے کو ایک حد تک رکھتی ہے کہ اپنے پن میں کہیں اس کا من نا پڑھ لیں۔ اور رنگ برنگے دوستوں میں من موجی ہے۔ قابو نہیں آتی۔

نیلی جب سے نیلی ہوئی ہے اسی رنگ کی عملی تصویر بن چکی ہے۔ بردبار اور میل جول رکھنے والی، دوستیاں پالتی ہے مگر ایک حد تک۔ محنتی ہے مگر کرے گی اپنی، ایک پل میں سارے زمانے سے لڑ لے گی مگر کام اور ہٹ دونوں نہیں چھوڑے گی۔۔ اس چیز پہ نہ اس نے کبھی سمجھوتہ کیا اور نہ ہی کرے گی۔ چاہے سیاہ ہی کیوں نا ہونا پڑے۔

No comments:

Post a Comment