Wednesday, November 24, 2010

رب کا شکر ادا کر بھائی

رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری بھینس بنائی

جناور کو حیات کی کمتر شکل مانا جاتا ہے۔ حضرتِ انساں بھی عجب ہٹ دھرم ہے صاحب۔ جس ہٹ پہ جم جائے اس کا اظہار بہر حال کرتا ہے۔ کہیں دروں اور کہیں بروں۔ اسی بالادستی اور زیردستی کی ہٹ نے شاید کمتر و کمتریں حیات کے تصور کو جنم دیا۔ جس کا ساری زندگی گوشت کھاؤ، اسے صرف سال کے چند دن ہی آسائش کے مہیا کرو، وہ بھی مذہب کے مرہونِ منت ہیں کہ اگر قربانی کے جانور کی ناز برداریوں کا حکم نہ ہوتا تو اس غریب کو بھی اسی چکی میں پسنا پڑتا۔ خیر صاحب روئے ارضی کے تمام چرند اس خوش قسمتی اور اس کے جلو میں آنے والے آئینی حقوق پہ شاداں و فرحاں ہونے چاہئیں، انسانوں کو تو یہ ساماں بھی میسر نہیں ہیں کہ عید الضحیٰ پہ ان کی قربانی جائز نہیں اسی لیے کمتریں حیات والا کردار آج کل انساں کی ذمہ داری بنا ہوا ہے۔

جناور سے میرا پہلا سمبند بہت ہی بچپن کا ہے۔ ہوش میں محفوظ پہلا منظر مسماۃ رانی سے اٹھکیلیوں کا ہے۔ جو میری زندگی میں در آنے والی پہلی مونث تھی۔ اسی کے ساتھ پہروں کھیل رہتا۔ سکول سے واپسی پہ بچہ پارٹی بستہ پھینکتی اور کھانا کھانے سے پہلے رانی کے کمرے میں حاضری لگواتی۔ بھادوں کی شاموں میں اس کے گرد پھرتے ہوئے ہمارے تخیل کا وہی عالم ہوتا"چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد"۔

تعارف

جب ماہ بدولت عالم آب و گِل میں جلوہ افروز ہوے تو عمِ محترم نے شہروں کی آلودہ ہوا اور جوہڑوں کے مصفیٰ دودھ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مسماۃ رانی اور بیس عدد طلائی انگشتریوں کو(ہر انگشت کے لیے ایک) پشتینی ملازم کے ہاتھ روانہ کیا۔ حضرات چونکہ خاکسار حضرتِ گجنینہ معانی کے ساتھ پیشہِ آبا والے فخر و انبساط میں شریک رہا ہے، جس کا ایک ثبوت والدِ محترم کا آتش صفت ہونا بھی ہے۔ سو والدِ محترم نے اسی وقت مسماۃ رانی کے اہلِ خانہ کو قیمتاً حاصل کر کے ان کے سپاؤس ویزے کا اجرا فرمایا جو رفتہ رفتہ گرین کارڈ میں بدلنا تھا۔

رانی کا کنبہ

رانی کہ حسب و نسب کی اعلیٰ تھی، شجرے میں کئی گمنام سپاہی تھے جن کی پیہم سعی اور تنِ سوختہ نے نسلِ انسانی کی بقاء کی جنگ دودھ اور گوشت سے لڑی۔ ؎وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔۔۔
ساہیوال کا زرخیز خطہ آج انہی گمنام مجاہدوں کے مسلسل جہد کے باعث عالمگیر شہرت حاصل کر سکا ہے۔ ورنہ احشام و گلہ بانی کے علاوہ کس ہنر کے یکتا اس دھرتی پہ بسے؟ اب تو بات یہاں تک آ چلی ہے کہ اس خطے کی حالیہ پیداوار کرکٹر بھی انہی اوصافِ حمیدہ کا مجموعہ نظر آتے ہیں۔ ٹس سے مس ہونے پہ تیار نہیں مگر جب دودھ(دوڑیں)دینے پہ آئیں تو تھن(بلے) کا منہ آتش فشاں کے دہانوں کی طرح کھل جاتا ہے۔

اس طرح ایک اعلیٰ خاندان کی روایات پہ عمل کرتے ہوئے مسماۃ رانی نے ترکِ وطن کیا اور راقم الحروف کے شہر بلکہ گھر میں آن بسی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ رانی کے پرنس آف ویلز محترم بلو (موصوف عادتاً ہی نیہں شکلاً بھی پرنس آف ویلز سے کافی مشابہت رکھتے تھے) اور ڈیوک آف ایڈنبرا کو پارسل کرنے میں عمِ محترم نے خاصی رد و قدح کا مظاہرہ کیا جس کی بناء پہ ان کے گرین کارڈ منسوخ کر دئیے گئے دروغ بہ گردنِ دریائے راوی۔۔۔ویسے ایک مشہور شاہی کنبے سے اس خاندان کی مماثلت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ رانی اخیر عمر تک باوقار رہی،بلو(پرنس آف ویلز)ساٹھا پاٹھا ہو کر بھی بیوقوفیوں، بد اعمالیوں اور بد پرہیزیوں کا حسین امتزاج تھا اور دلا(ڈیوک آف ایڈنبرا) تاعمر خاندان کی بہو بیٹیوں کو سدھارنے، بگاڑنے اور مارنے کے شغل شریف میں مبتلا رہے۔


رانی غریب خانے پہ

پدھارنے کو تو رانی جی پدھاریں مگر مسئلہ یہ تھا کہ اب ان کے شایانِ شاں رہائش کا بندوبست کہاں کیا جائے۔ غریب خانے کی ڈیوڑھی اس کو وہ آسائشات فراہم کرنے سے قاصر تھی جن کی وہ وطنِ مالوف میں عادی رہی تھی۔ اور پھر اس کے خدمت گار کے قیام و طعام کا بندوبست بھی رانی کے نزدیک ہی کرنا تھا۔ سو فیصلہ یہ ہوا کہ ڈیوڑھی کو کشادہ کر کے عوام کے لیے بند کر دیا جائے اور آمد و رفت کے واسطے نئی ڈیوڑھی کھولی جائے۔،،،اس سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ دروازے ہمیشہ بڑے بنانے چاہئیں، اونٹ کسی وقت بھی پہنچ سکتا ہے چاہے بطور لگن یا "بیام" ہی پہنچے۔۔

رانی سے میری پہلی ملاقات کا سینہ گزٹ بالکل دیہی رسم و رواج کا حصہ معلوم ہوتا ہے، جہاں ہر نئے جانور کو دیہاتی قریب ترین درگاہ پہ سلام کرانے لے کر جاتے ہیں۔ بقول راوی اسی طرز پہ رانی کو سجا سنوار کر ہمارے حضور پیش کرنے کا قصد کیا گیا۔ یہ کام اس کے بٹلر کے سپرد ہوا تھا۔ اب خدا جانے اس فلسفی نے رانی کو سولہ سیڑھیاں چڑھانے کے بارے میں کیسے سوچ لیا۔ وہ تو خدا ابا کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے جو وقت سے ذرا پہلے گھر پہنچ گئے۔ ورنہ رانی اور سیڑھیاں دونوں تاریخ میں امر ہونے والے تھے۔ ان کی بروقت مداخلت سے یہ سلام والی مہم معطل ہوئی اور بعد ازاں یہ فیصلہ کیا گیا کہ والدہ محترمہ ذرا دیر کو ہمیں گود میں لے کر رعایا کو درشن کرائیں۔

کچھ اس ادا سے رانی کے سر پہ خاکسار کا پہلا ہاتھ پھرایا گیا کہ بوجہ اس حقیر کی چیخم دھاڑ آسمان تک پہنچ رہی تھی اور مسماۃ رانی غالباً جلالتِ شاہی کی تاب نہ لا کر تھر تھر کانپتے ہوئے رسی تڑانے کا سوچ رہی تھی۔ قصہ مختصر جلالت مآب کی حوائجِ ضروریہ عین موقع پہ تائیدِ غیبی ثابت ہوئیں اور رانی سے پہلی ملاقات انجام پزیر ہوئی۔ بعد ازیں اس وفاکوش نے جس طرح اس پہلی غلط فہمی کا ازالہ کیا وہ بیان سننے سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی کے عرقِ حیات پہ پل کر عاجز نے اپنی زندگی کے پہلے پانچ سال اور پندرہ کلو حاصل کیے۔ رفتہ رفتہ صحت کا عالم یہ ہو چکا تھا کہ والدِ محترم کو اٹھاون ب دو سے کام لیتے ہوئے رانی کو ہماری اور ہمارے بہی خواہوں کی دسترس سے دور کرنا پڑا۔۔ اس دور میں اکثر بزرگ ہم دونوں کے نزدیک آنے سے گھبرانے لگے تھے کہ ایک سر سے وار کرتی تھی اور دوسرا ہاتھ پیر سے مزاج پوچھے لیتا۔

یہ امرِ واقع ہے کہ رانی کے دودھ سے حاصل شدہ مکھن پہ جس طرح پہلا حق میرا تھا، اتنا تو شاید بلو بھائی(رانی کے پرنس آف ویلز)کا بھی نہیں تسلیم کیا گیا ہو گا۔ اور آپ سے کیا پردہ اسی صحت بخش غذا کے باعث میں اور بلو بھائی رفتہ رفتہ ایک ہی صحت کے حامل ہو چکے تھے۔ اس کی گواہی عمِ محترم دیا کرتے جن کے باڑے میں بلو بھائی ہمہ وقت اپنی ہم نسلوں سے دل پشوری کرتے پائے جاتے۔

دودھ کی تاثیر کے بارے میں ایک تمثیل مشہور ہے۔۔کہتے ہیں بچھڑا نمبر 1(گائے کے بیٹے) نے بچھڑا نمبر 2( بھینس بیگم کے نورِ نظر) سے کہا یار آؤ آج کچھ کھیل کود کریں، موسم سہانا ہے، کئی بچھڑیاں واک کو نکلی ہوں گی۔ تھوڑی کھیل کریں کریں گے تھوڑی دل پشوری، آگے اس مسبب الاسباب کا کام ہے۔ شاید کسی رفیقہِ حیات کے مالک کو رجھانے میں کامیاب ہو جائیں۔ بچھڑا نمبر 2 جو کہ بھینس کے ثقیل دودھ پہ پلا تھا، اس کا روادار نہ ہوا۔ کہ ہاؤ ہو سراسر لغو اور شانِ مردانگی کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ چربی کے دشمنِ اول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پھر نمر 1 کے پیہم اصرار اور فربہ اندام بچھڑیوں کے حسیں خیال سے مجبور ہو کر اسے ہتھیار ڈالتے ہی بنی۔ سو صاحبو یوں دونوں بچھڑے ٹہلتے ٹہلتے میدان میں پہنچے، اب یہ قضیہ تھا کہ کیا کھیل کھیلی جائے جو بمبر 2 کی طبع نازک پہ گراں نا گزرے۔ دوڑ کے امکانات وہ حضرت گھر سے چلنے سے پہلے ہی رد کر چکے تھے ادھر نمبر 1 کچھ کر دکھانے کو بیتاب تھا۔ شاید اس نے حضرت حالی کا وہ مصراع سن رکھا ہو،

،؎ کچھ کر لو نوجوانو اٹھتی جوانیاں ہیں۔

سو فیصلہ یہ ہوا کہ دونوں ایک ٹیلے سے کودنے کا مقابلہ کریں گے اور جو جیت گیا بچھڑیوں کی جانب پہلے وہ جائے گا۔ سو نمبر 1 نے پہلی چھلانگ خود لگانے کا فیصلہ کیا اور ٹیلے پہ چڑھنے لگا۔ دفعتاً نمبر 2 کے ذہن میں ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپکا اور وہ بولا۔۔ اے میرے رفیق کیوں نہ ہم دونوں آمنے سامنے کھڑے ہو کر گردن ہلانے کا مقابلہ کریں کہ یہ عمل بھی مجرب اور ثابت شدہ ہے۔ شاید کوئی بچھڑی اسے اشارہ بازی پہ مخمول کرے اور دلوں کے کھیل میں اشارہ بازی کو وہی حیثیت حاصل ہے جو کرکٹ میں بلے کو۔ دونوں آمنے سامنے کھڑے ہو کر سر ہلانے لگے۔ شام تک مشق کرنے کے بعد جب دونوں بچھڑیوں کی طرف چلے تو دور سے ہی رکھوالوں کی لاٹھیوں پہ نظر پڑی اور اپنا سا منہ لے کر گھر کو چل دئیے۔۔نتیجہ۔ کبھی کبھار آنگن واقعی ٹیڑھا نکلتا ہے

رانی کے توسط سے ہم سب کا ایک اور واقعہ ان دنوں خاصا زبانزدِ خاص و عام ہوا اور آج تک ہم لوگوں کی چھیڑ بنا ہے۔ حتیٰ کہ میری رفیقہ حیات بھی جب تنگ کرنے کے موڈ میں ہوں تو دستِ حنائی دور سے دکھاتی ہیں، (قریب سے کریں تو انہیں نکلنے کون کافر دیتا ہے)۔ ہوا یوں کہ گھر میں حنا کا کافی رواج تھا۔ بال رنگنے، ہاتھوں پیروں پہ نقش و نگار بنانے سے لے کر معمولی موسمی پھنسیوں کا علاج اسی سے کیا جاتا۔ تو اس ماحول میں مہندی کو بچوں کی پہنچ سے عموماً دور ہی رکھا جاتا کہ ہم لوگ لالہ کے علاوہ ایک دوسرے کی حنا بندی کرنے کے بھی حد درجہ شوقین تھے۔ تو پہلی بار جب رانی کے کمرے میں ایک سبز سا ڈھیر نظر آیا تو خاکسار نے سلائی سے سب بچوں کی حنا بندی کر ڈالی۔

آخری دور

گرچہ رانی کے مزاج میں درویشی اور وفاداری کوٹ کوٹ کر بھری تھی مگر دنیا کی زبان پکڑی نہیں جاسکتی۔ یارو اس فقیر کو جلال الدین شاہ خوارزم سے دور کا واسطہ بھی نہیں مگر رانی اپنی بلند ہمتی اور اعلیٰ صفات کی بناء پہ اس کے گھوڑے کے مقام تک ضرور جا پہنچی تھی۔ یعنی عدو کی آنکھ میں شاہ سے زیادہ کھٹکتی۔ رفتہ رفتہ اس خاکسار اور اس کے چند بہی خواہوں کے علاوہ کل مخلوق رانی کی بیری ہو گئی۔

صاحبو دھن دولت سے زیادہ خطرناک تن دولت ہے۔ یہ دو دھاری تلوار جب اپنی طرف چلے تو گردن کاٹنے سے پہلے نہیں رکتی۔۔یہ بھٹا سا سر اڑتا ہے۔ سو رانی بھی تن دولت کا شکار ہو چکی تھی۔ سیروں دودھ روزانہ سے چند بچوں کا حصہ نکال کر باقی انتہائی ایمانداری سے مدرسے کے طلباء کو بھیج دیا جاتا۔ باقی بچوں کے لیے گوالا دوگنی قیمت پہ دودھ فراہم کرتا، اگرچہ اس دودھ کے خالص ہونے پہ بھی کوئی شک نہ تھا کہ شیر فروش ہمارا پشتینی تھا اور روزانہ صبح ہمارے نوکر کے سامنے ہمارے گھر کے برتنوں میں دودھ دوہتا مگر وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہ تھا۔ ادھر مسماۃ رانی بھی مزاج کے اس درجے تک جا پہنچی تھی جہاں اس قسم کے معترضین کا منہ عملی اقدامات سے بند کیا جاتا ہے۔ سو روز بہ روز اس کا رویہ ہمارے ساتھ دوستانہ سے ترقی پا کر محبانہ اور معترضین کے ساتھ معاندانہ سے بڑھ کر بیہیمانہ ہوتا چلا گیا۔ کسی کو بھی ٹکر دے مارتی۔ آخری بار جس برے کو گھر تک پہنچا کر آئی وہ ہماری آستین کا سانپ نکل آیا۔ کونسل آف ایلڈرز کے دباؤ پہ ابا کو رانی کی ملک بدری کے ایگزکٹوو آڈر جاری کرنے پڑے۔۔۔۔۔سنتے ہیں اس کے بعد وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہی، اور ہم لوگ بھی اس کے جانے کے بعد اداس اور دبلے ہونے لگے تھے

No comments:

Post a Comment