Wednesday, June 08, 2011

آبِ حیاتیات پہ دو سطور

 یادش بخیر۔۔ پار سال چائے پہ لکھنے کی فرمائش موصول ہوئی۔ احقر متامل تھا کہ اولاً مشاہیر ظرافت تواتر سے اس قدر معیاری مضامین باندھ چکے ہیں کہ کم از کم مزاح نگاروں کے اعصاب پہ سوار حسینہ لپٹن دیوی کہلائی جا سکتی ہے۔ اور ثانیناً پاؤ صدی کے عشق کا بیان ایک ناپختہ مضمون میں ناممکن ہے۔علاوہ ازیں احقر کے نزدیک اسے کارِ بیکار بھی کہا جا تا ہے کہ جائے کی مدحت میں بہترین قصائد فی البدیہہ ور عینِ وصل میں ہی وارد ہوتے ہیں،اور عینِ وصل کے لذائذ  کی تفاصیل کا بیان ازلی و جبلی طور پہ غیر فطری و ناگفتہ بہ ہے۔  تاریخ گواہ ہے کہ ہر ثقہ بند عاشق کے واسطے ذکرِ لیلیٰ قربِ لیلیٰکی مہمیز ہے سو اس کلیے کے مطابق ہمیشہ چائے پہ لکھنے سے بہتر چائے نوشی ہی لگی جو راقم کے صدقِ عشق اور وفورِ شوق پہ دال ہے۔ اس اقرارِ حال کے بعد بھی اگر آپ اس مضمون کو پڑھتے ہی چلے جائیں تو یہ آپ کی خوش  مذاقی پہ دال ہے۔



بزرگوں نے یوں تو ہر بات پہ غلط سلط، متبرک و تابکار اور گفتہ و ناگفتہ بہ اقوال اسقدر کہہ رکھے ہیں کہ انہی دماغی خلیات کو جو اقوال گھڑنے میں مصروف رہے کام پہ لگاتے تو آج ہمارے ہر شہر میں ایک آئن سٹائن ہوتا، مگر پھر بھی ان کے کچھ اقوال نامکمل سے رہ گئے ہیں، اک تشنگی سی ہے۔ مثال کے طورپہ زوجہ اور سواری سے متعلقہ ایک مشیورِ زمانہ قول میں اگر چائے کا بھیاضافہ کر دیا جائے تو سونے پہ سہاگہ ہو کیونکہ چائے بھی ہمیشہ وہی اچھی رہتی ہے جو اپنی(منشا کی) ہو۔ بلکہ چائے نوش تو اس میدان میں کئی کوس پاپیادہ سفر کر چکے ہیں۔ پھوہڑ سے پھوہڑ بیوی اور ناکارہ سے ناکارہ شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے والوں کو دو دن اوپر کی چائے پلا کر دیکھیں، شاداں وفرحاں رہنے والے زندگی سے ہی بیزار ہو جائیں گے۔ خود خاکسار بھی انہی نفوس  میں شامل ہے جنہیں دارجلنگ کی چائے سے دستِ حنائی کی مہک اور تاثیر ملتی ہے اور کینیا کی چائے سے بھبھکے۔ اور خوشبو کے باب میں حکماء کا قول ہے: مہک بھبھکوں سے افضل ہے۔  حکماء کے علاوہ اگر بادہ نوشوں کا ذکر کیا جائے تو ہر ایک کا  اپنا پیمانہ ہے اور اپنا قدحہ۔ مدتِ مدید کی بادہ نوشی حسیاتِ ذائقہ و شامہ کو اسقدر طاق کر جاتی ہے کہ پیالی ہاتھ میں آتے ہی شجرہ بیان کرنے لگتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اس فن کو اس قوم نے بامِ عروج پہ پہنچایا جس کی اپنی حسِ ذائقہ کثرتِ مے نوشی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ بطورِ ثبوت روایتی یورپی اور بالخصوص برطانوی کھانوں کو ہی لیں۔ اسقدر پیازی گوشت کہ دیکھتے ابکائی آئے۔ ذرا سا خستہ ہونے پہ اودھم مچانے لگتے ہیں۔۔ جل گیا برباد ہو گیا۔۔ جانے اس قوم کا پلاؤ تناول کرنے پہ کیا حال ہو؟ ۔ اور پھر سیاہ سیال جسے  سیاہ کافی کا نام دیا جاتا ہے۔ جاتے ظالموں کو اس تلخابے میں کیا ملتا ہے جس کی کڑواہٹ مردے سے بھی منہ بھر قے کرا دے۔

بہرحال۔ چائے کو ذائقے اور خوشبو کے خانوں میں اگر کہیں ٹھونسا جاتا ہے تو وہ برطانیہ پے۔ برطانوی استعمار کی خوشحالی نے اس قوم کو جو فارغ البالی عطا کی اس کی چھوٹی سی تصویر چائے خانوں میں نظر آتی ہے۔  بلامبالغہ بیسویں اقسام  حتیٰ کہ سیب اور انار تک کی مل جائے گی۔ اور شاید یہی تنوع اس قوم کی مرحوم حسِ ذائقہ کا آئینہ دار ہے۔ نامعلوم سیب کے ست سے چائے کس طرح خوشبودار بنتی ہے۔ ہر گھونٹ پہ یہی لگا کہ گھٹیا عطر کے چند قطرے پیالی میں ٹپکا دئیے گئے ہیں۔ فارغ البالی اور طمانیت بھی کیا کیا رنگ دکھاتی ہے۔ ظالموں نے چائے کو چائے کے علاوہ سبھی کچھ بنا ڈالا۔ اشرافیہ کے علاقوں میں چائے خانے دیکھے۔ نفسیات کے عجائب خانے لگے۔ اور پھر ایک جرعہ چائے کی قیمت باقی بستیوں میں تین آدمیوں کا پیٹ بھرنے کو کافی ہے۔ چلو یہ تو اس قوم کے چونچلے ٹھہرے جو اس عیاشی کی متحمل ہے۔ اصل غصہ اس وقت آتا ہے جب اپنے رنگدار بھائی بند بس یا ریل سے اتر کر وہاں آتے ہیں اور دس گنا دام چکا کر اس مشروب کو نوشِ جان کیا جاتا ہے جو نہ ان کو سمجھ آ سکتا ہے اور نہ ان کے نظامِ انہضام و نظامِ اعصاب کو۔ ایسی جگہوں پہ اکثر لطائف ہی رونما ہوتے ہیں۔ ایک صاحب ظہرانے کے ساتھ گلِ بابونہ کا قہوہ چسکاتے ملے جو عشائیے کے کہیں بعد پیاجاتا ہے۔ جبکہ انکی ہمراہ جن نظروں سے سادہ چائے پیتی انکو تک رہی تھیں۔ اگر ان کا مفہوم سمجھ لیتے تو اسی دم اس عفیفہ کو اپنے دل اور جملہ اعضائے رئیسہ سے عاق کر ڈالتے۔

چائے ہر قوم کی ثقافت اور تاریخ ایک پیالی میں بیان کر ڈالتی ہے۔ اپنے پنجاب کی دودھ پتی اس قوم کی خوش خوراکی اور نظامِ انہضام کی آئینہ دار ہے۔ نیز اس سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اپنے ہاں جب تک کسی کو غسلِ روغنیات نہ دیا جائے عامۃ الناس کے نزدیک ہر گز قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔ دودھ کے پیالے میں جس طرح پتی کو ڈوبنے سے پہلے ہی کنارے پہ کھینچ لیا جاتا ہے یہ پنجابیوں کے علاوہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہو سکتی۔ ارے صاحب یہ قوم تو مشروبات بھی لسی سے رکھتی ہے جو مشروب کا مشروب اور دوا کی دوا، خواب آور۔ دودھ پتی کے علاوہ پنجاب میں جو کڑک چائے ملتی ہے۔ اس کا مقابلہ کہیں نہیں مل سکتا۔ دودھ چینی اور پتی کا درست ترین تناسب۔ خاکسار نے آنکھوں کے سامنے چائے خانوں کو دکانوں میں بدلتے دیکھا۔ ادھر کراچی والے اپنی چائے کو تیزاب کہتے نہیں تھکتے، اور صحیح کہتے ہیں۔ کڑوے کسیلے قہوے اور چائے میں صرف کراچی کا پردہ حائل ہے۔ مجھے حیرت اس امر پہ ہے کہ روزانہ بنیادوں پہ اسقدر پتی پھانکنے والے ابھی تک  سوپر مین کے ہم پلہ کیوں نہیں ہو سکے۔ کڑکتے پانی میں مٹھیاں بھر بھر پتی اور دو رتی چینی۔ رہا دودھ تو اس کا ڈبہ پاس سے گزار لو وہی کافی ہے۔ خدا کی قسم اگر ان لوگوں کا بس چلے تو سمندر میں د و بوری پتی پھینک کر اسے بھی چائے کا نام دے ڈالیں۔  اور پھر کہتے ہیں کراچی کا موسم بہت واہیات ہے۔ ارے صاحبو۔ اس قدر پتی اگر کوہِ ہمالیہ پہ بیٹھ کر بھی پھانکو تو قمیض بوجھ لگنے لگے گی۔۔ حکماء کہتے ہیں۔ 

ہماری نسل کی چائے نوشی ہٹ کی دین ہے۔ کیونکہ ہمیں جس چیز سے روکا گیا وہ تو ہم نے ضرور ہی کی۔ جانے بزرگواروں کو چائے سے اسقدر چڑ کیوں تھی۔ اس مشروب کے بغیر تو دنیا دنیا نہیں رہتی۔ آغا نے پہلا لفظ تائے سیکھا۔ اور جناب کی اپنی روایات کے مطابق مدتِ رضاعت ختم ہونے سے پہلے پہلے آغا بوتل میں چائے پینے لگے تھے۔ دروغ بر گردنِ آغا، امِ آغا ان کی مدتِ رضاعت میں صرف چائے پہ زندہ تھیں۔ شاید یہی ہولناک تجربات آغا کے اکلوتے پن کا باعث بنے، ورنہ گلشن میں سامانِ تنگیِ داماں بھی تھے۔ کہ آغا کے کنبے میں بچوں کے ناموں سے زیادہ ان کی کنیت یاد رکھی جاتی۔ گڈو کا تیسرا۔ گوگی کی ساتویں۔ جانے خاندانی منصوبہ بندی والوں کو یہ سوچ کیوں نہ آ سکی ورنہ ڈھیر ساری ادویات پہ روپے نہ برباد ہوا کرتے۔

5 comments:

  1. بہت خوب فریدون بھائی
    کراچی والوں کا تو کیا ہی اچھا نقشہ کھینچا ہے
    ٹو گڈ

    ReplyDelete
  2. بہت ہی عمدہ استاد جی۔
    چائے تو ہمارے لیے بھی فیول کا درجہ رکھتی ہے جی۔
    بہت ہی مزے کی تحریر لکھی۔

    ReplyDelete
  3. بہت عمدہ تحریر ہے۔ آپ نے تو قبلہ چائے کے ساتھ وہی سلوک کیا ہے کہ جو پطرس نے 'کتے' کے ساتھ کیا تھا۔ ہماری طرح جن لوگوں کا بلڈ گروپ چائے پازیٹو ہےان کے لئے تو اس مضمون کا پڑھنا کیفین کی طلب بڑھانے کا نسخہ اکثیر معلوم ہوتا ہے ۔
    اب اتنی اچھی اردو میں طنز و مزاح پڑھنے کو شاذونادر ہی ملا کرتا ہے، لوگ پھکڑ پن، ذومعانویت اور بازاری لب و لہجےکے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے قحط الرجالی وقت میں برطانوئ استعمار کی فارغ البالی، عفیفہ کی 'عاقیانہ' روش اور اہل کراچی کے ذوق پیالہ پر لکھا گیا یہ خوبصورت مضمون ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا معلوم ہوتا ہے اور بلاشبہ بار بار پڑھنے کے قابل ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور!

    ReplyDelete
  4. از شکیل
    سلام مسنون
    جناب کی پوسٹ پر ایک نظر ڈالی اور بک مارک کرکے چھوڑدیا، میرا خیال تھا کہ اس قسم کی پوسٹوں کو سرسری نہیں پڑھا جاسکتا یہ مصنف کے ساتھ بے مروتی اور خود کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے- لہذا آج نہ صرف جناب کی پوسٹ لفظ بہ لفظ بلکہ حرف بہ حرف پڑھی اور نتیجے میں جو گستاخانہ خیالات کا ہجوم ابھرا آپ کی نذر ہے-

    آپ نے فرمایا-
    علاوہ ازیں احقر کے نزدیک اسے کارِ بیکار بھی کہا جا تا ہے کہ جائے کی مدحت میں بہترین قصائد فی البدیہہ ور عینِ وصل میں ہی وارد ہوتے ہیں،اور عینِ وصل کے لذائذ کی تفاصیل کا بیان ازلی
    و جبلی طور پہ غیر فطری و ناگفتہ بہ ہے۔

    اس جملے کو کی بار پڑھا' پھر فونٹ بڑا کر کے بھی دیکھا کہ بعض اشیا قدرت نے ایسی بنای ہیں کہ بڑی ہونے پر سمجھ میں آنے لگتی ہیں اور اکثر تو اچھی بھی لگنے لگتی ہیں بہرحال تمام زاویوں سے
    جایزہ لینے کے بعد محسوس ہوا کہ یہ "جاے کی مدحت" ہی لکھا ہے مگرجملہ کیوں کہ وصل اور تفاصیل ہاے لذایذ سے نہ صرف لبریز تھا بلکہ کہیں کہیں چھلک بھی رہا تھا لہذا اگلا خیال یہی آیا کہ شاید جناب عالی کے مختلف خیالات کے اجتماع نے اس ترکیب کو جنم دیا ہے-فرایڈ نے بھی خوابوں کے ضمن میں کچھ ایسے ہی واقعات کا تذکرہ کیا ہے- بہرحال اس جاے کو چاے فرض کر کے پڑھا تو محسوس ہوا کہ چاے جیسی رقیق شے کے ساتھ وصل جیسے مغلظ معاملات کا ذکرآپ جیسے " دہن رسا" ہی کا خاصہ ہے-


    مثال کے طورپہ زوجہ اور سواری سے متعلقہ ایک مشیورِ زمانہ قول میں اگر چائے کا بھیاضافہ کر دیا جائے تو سونے پہ سہاگہ ہو کیونکہ چائے بھی ہمیشہ وہی اچھی رہتی ہے جو اپنی(منشا کی) ہو۔

    یہاں ایک واقعاتی غلطی کو درست کرنے کی درخواست کروں گا کہ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ بچے اپنے اور زوجہ دوسرے کو اچھی لگتی ہے- آپ نےاس جملے میں بچوں کو نکال کر سواری کو داخل کر دیا اور مجھے ایک پھر فرایڈ یاد آیا-

    برطانوی استعمار کی خوشحالی نے اس قوم کو جو فارغ البالی عطا کی اس کی چھوٹی سی تصویر چائے خانوں میں نظر آتی ہے۔

    جہاں تک گوروں میں آنے والی ذایقہ کی تبدیلیوں کا معاملہ ہے اس کا تعلق ہر شعبہ زندگی سے ہے اور وہ محض چاے تک ہی محدود نہیں بلکہ بڑھ کر ساقی تک جا پہنچی ہے اور اس کی وجہ فارغ البالی کے ساتھ فارغ البالغی بھی ہے-

    اپنے پنجاب کی دودھ پتی اس قوم کی خوش خوراکی اور نظامِ انہضام کی آئینہ دار ہے۔
    دودھ پتی کے علاوہ پنجاب میں جو کڑک چائے ملتی ہے۔ اس کا مقابلہ کہیں نہیں مل سکتا۔ دودھ چینی اور پتی کا درست ترین تناسب۔
    کڑکتے پانی میں مٹھیاں بھر بھر پتی اور دو رتی چینی۔ رہا دودھ تو اس کا ڈبہ پاس سے گزار لو وہی کافی ہے۔

    معذرت کے ساتھ یہاں ہم آپ سے اختلاف کریں گے - اگر آپ چاے کے اجزاے رئیسہ پر غور فرمایں تو ہمارے خیال میں چاے وہ شے ہے جس کے ذوق کا تعلق ساقی سے ہے اور یہ راست تناسب کے اصول پر کام کرتا ہے اگر غور فرمایں تو اس کی دلیل آپ کے اپنے جملوں میں موجود ہے، اگر مزید دلایل درکار ہیں تو غبار خاطر میں مولانا ابولکلام آزاد کے قہوہ کی شان میں لکھی گی تحریریں ہمارے وعوی کی تصدیق کرتی ہیں- ان کی چاے کی ترکیب سے اس زمانے کے معاشرہ کی تصویر اخذ کی جا سکتی ہے-

    مزید دلایل کے لیے ہم کرنل محمد خان کے چاے کے بارے میں کہے گے لافانی قول کا تذکرہ کریں گے کہ " لبریز ، لب سوز اور لب دوز " ہمیں بتایے گا کہ اگر یہ جملہ بغیر سیاق و سباق کے شایع کیا جاے تو جواب میں کیا برآمد ہوگا-

    ہمیں یقین ہے کہ میرج بیورو والے اگر دیگر کوایف کے ساتھ اگر ذوق ہاے چاے کا فارم بھی بھروالیں تو خوشگوار ازدواجی زندگی کی ضمانت دی جاسکتی ہے-

    دیگر قاریین سے معذرت کہ
    "ہر چند کہ ہو مشاہدہ حق کی گفتگو + بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر"

    ReplyDelete
  5. واہ. فریدون صاحب آپ کمال کا لکهتے ہیں. آپ بلاگ کے علاوه کہاں لکهتے ہیں؟ یعنی کسی اخبار میں؟ آپ اپنی کتابوں کے بارے میں کچه بتائیں. میں آپ کی مزید تحریریں پڑهنا چاہتا ہوں. آپ نے تو مشتاق احمد یوسفی یاد کرا دے. ماشاللہ آپ نے کمال کر دیا ہے. خدارا اپنے بارے میں کچه لکه دیجئے بلاگ میں. آپ بہت بڑے ادیب لگتے ہیں. مجهے آپ کے بارے میں بالکل نہیں پتا. معزرت چاہتا ہوں. آپ لیجنڈ ہیں.

    ReplyDelete