Friday, June 10, 2011

افکارِ دگر--- بلاگنگ اور اردو

بلاگنگ، اردو مستقبل کا اہم کھلاڑی۔

بزعمِ خود دانشور، مصنف نما شے ہونے کی کافی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ اور اگر آپ گمنام یا نو آموز ہیں تو یہ قیمت کئی گنا بڑھ جایا کرتی ہے۔ میٹر یا مواد کی تلاش میں ہر چیز پہ غور کرنا پڑتا ہے۔ اس سے یہ سامنے آتا ہے اس کے وہ معانی بنتے ہیں۔ اچھے سیل مین کی طرح مواد کو مارکیٹ کرنا پڑتا ہے۔ اور ابتدائی مراحل پہ مارکیٹنگ کے لیے مواد کی موجودگی از بس ضروری ہے کہ ابھی لوگ آپ کا نام نہیں جانتے اور خریدار کے سامنے کچھ رکھنا بھی ہے۔  ہمارے پاس تحقیق سے زیادہ تنقید کے شائق آتے ہیں سو ان کو راغب کرنے کے واسطے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے ورنہ ایک تنقید برائے تنقید پہ مشتمل تبصرہ ہی ہفتوں کی محنت پہ پانی پھیرنے کو کافی رہتا ہے۔ اور آنلائن دنیا میں ویسے بھی تبصرہ لینا جان جوکھم کا کام ہے۔ جتنا آسان ہمیں پڑھنا ہے اتنا ہی آسان ہم سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی ہے۔ کوئی ایسی چیز جو قاری کو کلک نہ کر سکے، قاری کو ہفتوں دور رکھ سکتی ہے۔ اور قاری کے ذہن میں آپ کی بات اگر غلط جگہ کلک کر جائے تو یہ عرصہ مہینوں میں بدل جاتا ہے۔ کتاب یا اخبار کی مانند نہ قارئین کی آپشنز محدود ہیں کہ اب یہی میسر ہے اسے ہی پڑھو اور کتاب بند کرنے کے ایک طرف رکھنے کی نسبت بلاگ بند یا سکپ کرنا کافی آسان ہے۔



 ہمارا تما تر دارومدار فقط ایک کلک پہ ہے۔ ہم آپ سے ایک کلک یا ہمیشگی کی دوری ہی ہیں۔ اور پھر اگلے بلاگ کی صورت میں وافر مواد کی دستیابی مقابلہ مزید سخت کر ڈالتی ہے۔جہاں آنلائن دنیا نے ہمارے لیے مواقع مہیا کیے ہیں وہیں مقابلہ مزید سخت کر دیا ہے۔ اب لکھنے کے لیے نہ تو کسی روایتی تربیت کی ضرورت ہے اور نہ روایتی سازوسامان کی۔ سو ایسے میں زید و نکر بڑے آرام سے مصنف بن سکتے ہیں، دو چار احباب کی دستیابی کوئی اتنی مشکل شرط نہیں۔ ہاں اسکے بعد وہ مرحلہ آتا ہے جہاں ابتدا ہی چکی کی مشقت کے موافق ہے۔ کیونکہ مفت مواد کی دستیابی اور ہر ایک کی اس تک رسائی صارف کو بےپروا کر ڈالتی ہے، ستائشِ باہمی وغیرہ سے مبراتعریف یا تنقید برائے ادب حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ مرے پہ سو درے کے مصداق کچھ قاری تحریر سے قبل تبصرہ دیکھتے ہیں۔ اول، ہیں بھی یا نہیں۔ دوم، کیسے ہیں۔ سوم۔ کتبے ہیں۔ ؎ بسکہ مشکل ہے ہر کام کا آساں ہونا۔


سو جو احباب یہ سمجھتے ہیں کہ بلاگنگ نے اردو مصنفین کا سفر بہت آسان کر دیا، انہیں شاید اس پہ پھر سے غور کرنا پڑے۔ جہاں ہمارا سفر آساں ہوا ہے وہیں مقابلہ بھی تو دیکھئیے۔ جہاں دس بیس یا پچاس لوگوں میں اپنی پہچان بنانی پڑتی تھی وہیں اب ۔ ہزاروں بلاگ موجود ہیں گوگل کے مطابق پاکستانی اس میدان میں کافی آگے ہیں۔  ؎بیکار مبارش کوئی کام کیا کر۔ کچھ نہیں تو  بلاگ  ہی ادھیڑ کر سیا کر۔ چھینک آئی بلاگ لکھ مارو، سردی ہوئی بلاگ لکھ ڈالو۔ پسنہ بہے تو بلاگ میں بہاؤ۔ اور پھر ہماری ساری قوم ہی بقراطوں پہ مشتمل ہے۔ ایسے ایسے لاجواب بلاگ دیکھے کہ جھوم اٹھا۔ بنیادی طور پہ ہم ایک بسیارگو اور ہر فن مولا والی خوش فہمی میں مبتلا قوم ہیں۔ اور پھر پچھلے دس بارہ سالوں میں جس قدر آگہی ٹی وی چینلز کے طفیل نصیب ہوئی ہے۔ اس کا ہزارواں حصہ بھی صحیح وقت پہ مل جاتا تو آج حالات بہت مختلف ہوتے۔

 خیر بات بڑھانے سے موضوع بدل جائے گا۔ ذکر تھا بلاگنگ اور مارکیٹنگ کا۔ ڈیڑھ دو سال بلاگنگ کی دنیا سے اسی باعث دور رہنے کا جتنا افسوس مجھے ہے۔ حضرت انسان کو ڈیڑھ دو لاکھ سال چاند سے دور رہنے کا نہ ہو گا۔ کیونکہ اس وقت اردو ادب کا مستقبل بلاگنگ سے کافی متاثر لگ رہا ہے۔ وجہ اس امر کی یہ ہے کہ ہمارے ہاں کتاب کا کلچر ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اور اکثر جزوقتی بلاگرز کے معاشی حالات ایک کتاب لانے کی اجازت نہیں دیتے۔ اگر دیتے بھی ہوں تو پڑھے گا کون؟۔ کیونکہ کلچر ہی ختم ہو رہا ہے۔ ایسے میں اگر بلاگز نہ ہوتے تو اردو کا مستقبل کافی مشکوک تھا۔ اور پھر ملکی و عالمی حالات ہماے لیے نعمتِ غیر مترقبہ ہیں۔ آج کل حالات کے طفیل خبر سے کالم لکھنا بہت آسان ہو چکا ہے۔ صبح اٹھو۔ ایک آدھ خبر دیکھو اور اپنے ماہرانہ خیالات لکھ ڈالو۔ انہیں پڑھ کر کسی اور کی رگ پھڑکی تو مزید بھلا ہو گا۔ ایک اور بلاگ آ جائے گا۔ یوں ہوتے ہوتے ایک خبر پہ دس بلاگ سامنے آ جاتے ہیں، شاید کچھ سالوں تک فکشن بھی کالم کی شکل میں دکھے۔ راجہ گدھ، سو کالم۔ بہاؤ۔ سو کالم، جنگ و امن ۔ پانچسو کالم۔ خیر یہ تو ادب کی خاصیت ہے کہ معاشرے کے عین مطابق شکل اختیار کرتا ہے،  ڈر بس اتنا ہے کہ فراوانی کہیں اس سہولت کا بھی وہی حال نہ کر دے جو ٹماٹر کا سیزن کے عروج پہ ہوا کرتا تھا۔ دو روپے کلو۔   

10 comments:

  1. السلام علیکم
    بالکل درست فرمایا۔ شائد اردو ادب کا اگلا قدم یہی ہے۔ سو کالم کی کتاب کا خیال تو اچھا ہے۔ لیکن ہر کالم دو روپے !! کچھ علاج اسکا بھی ہے کہ نہیں

    ReplyDelete
  2. بہت عمدہ جناب
    آپ کی بات سے سو فیصد متفق کہ آنے والا دور بلاگنگ کا ہی ہے۔
    اور اس احساسِ زیاں میں یہ ناچیز بھی برابر کا شریک ہے۔

    ReplyDelete
  3. @گمنام@
    اس کا علاج ذرا سا مشکل ہے۔ جیسے کتاب کے دور میں معیاری ادیب اوپر آتے چلے گئے اور ہم جیسے ایک یک دو دو چھپوا کر وقت کی گرد میں اٹ گئے۔ یونہی بلاگرین کا بھی یہی حال ہو سکتا ہے۔ بہرحال ابھی عام قاری کو بلاگز کی جانب راغب کرنا کارِ دشوار ہے۔ اور پھر جب ہم خود بلاگز کو انقلاب کا ہراول سمجھ لیں تو کام مشکل ہو جاتا ہے۔ بالکل ترقی پسندوں والا حال، فیض اور چند ایک کو چھوڑ کر آج باقیوں کا نام بھی نئی نسل نہیں جانتی۔

    ReplyDelete
  4. @فارس@

    میاں جی۔ یہ تو مجھے پتہ ہے کہ آپ ہمیشہ وکھری کہتے ہیں۔ اور اچھی بھی، مگر اس سسٹم سے اپنی بہتری کے سامان نکالنے ہوں گے ہمیں،، ورنہ ایک آدھ سال تک کون فریدون اور کون فارس۔۔۔ معیار اور تنوع بہت ضروری ہیں

    ReplyDelete
  5. میرے خیال میں بلاگنگ کےبڑھنے سے اردو کا مستقبل زیادہ تابناک ہوگا۔۔۔مگر پتہ نہیں کب ۔۔۔

    ReplyDelete
  6. جی یہی مجھے بھی انتظار ہے۔ یقین تو ہے کہ اردو کے مستقبل میں بلاگز کا اپنا کردار ہے مگر وقت فی الحال کوئی بھی نہیں دے سکتا۔ کیونکہ فی الحال بی بی سی یا کسی حد تک جنگ بلاگ کے علاوہ کہیں کوئی قابلِ ذکر رسپانس کم ہی دیکھا۔ اور بی بی سی والوں سے مکمل اتفاق کم ہی ہوا ہے۔ بلاگر یا ورڈ پریس سے کسی کو صحیح معنوں میں اوپر نکلتے کم ہی دیکھا ہے۔ یا شاید ابھی تک میری نظر میں نہیں آ سکا۔

    تشریف آوری اور پسنددیدگی کا شکریہ

    ReplyDelete
  7. دو روپے کلو ٹماٹر میں برائی ہی کیا ہے۔ کڑاہی کے لیے خوب ہیں۔
    بلاگز بھی ایسے ہی سمجھیے۔ جز وقتی بلاگر انھیں دیکھ دیکھ کر جی بہلا لیتے ہیں۔
    آپ کا اندازِ تحریر دلچسپ ہے، اگر آپ کوئی موضوع منتخب کر کے لکھیں تو بہت اچھا ہو۔

    ReplyDelete
  8. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete

  9. میرا جی ہے اب قوالی گایا کروں۔

    ویسے کڑاہی میں نقصان یہ ہے کہ ایک تواسکا نام ہی کریہہ الصوت ہے اور دوسرا اس میں ٹماٹر کو پیاز کے گھاٹ اترنا پڑتا ہے۔

    آپ تو انگریزی میں لکھتی ہیں جو مجھے آتی نہیں۔ اسی لیے میں آپ کی تحاریر کا مطالعہ فرمانے سے قاصر ہوں
    ؛)

    ReplyDelete
  10. bohot achy.... arsey baad apki tehrir parhi.... bara acha laga.....

    ReplyDelete