Saturday, August 13, 2011

کیا پکائیں؟

بولنے اور بولتے ہی چلے جانے کی لت عجیب ہے صاحبو۔ کسی ایسے سے پوچھو جس کی بولتی بند کی یا کرائی گئی ہو۔ جیسے اپنے ایک بہت ہی بڑے شاعر نے کہا ہے عجب دستور زبان بندی تیری محفل میں وغیرہ۔ اقبال بھی اگر دل کی بجائے منہ سے نکالتے تو طاقت پرواز دیکھتے۔ یقین نہ آئے تو ابھی افواہ اڑا کر دیکھ لیجئیے۔ خاکسار کی زبان یعنی کمپیوٹر درجہ شہادت پہ فائز ہونے کے بعد بولتی کی اہمیت خوب ذہن نشین ہوئی۔۔ بلاگر والا بلاگ بھی کمپیوٹر کے ساتھ ہی راہی ملک عدم ہو چکا تھا اور نئی نئی بولتی بند ہونے کے باعث دردِ شکم دردِ زہ کی شدّت کو پہنچتے پہنچتے رہ جاتا تھا۔ یکایک یار لوگوں نے گوگل ٹیکسٹ ایڈیٹر کو الو بنانے کا طریقہ دریافت فرما لیا اور دردِ شکم سے نجات کی امید ہونے لگی ہے۔ آپ میں سے اکثر نے انور مسعود کی شاہکار نظم "آج کیہہ پکائیے" سن رکھی ہوگی۔ اگر نہیں سنی تو مجھ پر یقین کیجئیے عمدہ نظم ہے۔ اگر یاد ہوتی تو پیش کرتا۔ شاعری کے بے محل ذکر سے یہ بتانا مقصود تھا کہ مجھ پہ بھی اس کثیرالعیال خاتون کی طرح جو ہفتے عشرے بعد کہیں سے لوٹی ہو اور ایک آدھ مہمان بھی بغل میں داب رکھا ہو، آج کیا پکائیں کی آفاقی کیفیات کا نزول ہورہا ہے۔


ازمنہ قبل از دردِ شکم میں یار لوگوں نے کھینچ کھانچ کالم نگاری کی کھاٹ پر ڈال دیا تھا۔ جو کہ فی الحال عاجز کی رسائی سے باہر ہے۔ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔۔ ایک رینگتے ہوئے مزاح نگار کو کالم نگار بنانے پہ پردہِ غیب سے انہی علامات کا نور ظہور ہوا کرتا ہے۔ مائل بہ موبائل ہیں مگر الفاظ ہاتھ سے پھسلے جا رہے ہیں۔ کالم لکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو مضمون بننے لگتا ہے اور مضمون شدت سے کالم پسند ہو رہا ہے۔ سوچ رہا ہون تحریکِ کالمان بلاگستان کی بنیاد رکھی جائے، آخراپنے الگ صوبہ اور اپنی الگ جماعت کا مطالبہ پیش کرنا آئینی حق اور آج کل کا فیشن ہے۔ میرے ٹوٹے پھوٹے کالم نما قلم پاروں کی اولین اور فی الحال آخری قاری محترمہ رافعہ کے بقول خاکسار بے ادبی کی اس ذیل میں نام کمانے کی خاصی صلاحیت رکھتا ہے۔ دریں چہ شک۔ پوت کے پاؤں پالنے وغیرہ میں۔۔ مگر ابھی تک میرا نام نیم پلیٹ پر ہی روشن ہو سکا ہے۔ چلتا ہے۔۔ رازی نے قریباً ادھیڑ عمری میں طب کی جانب رجوع کیا۔ نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز۔۔ اگرچہ خاکسار کا رجحان فکشن کی جانب تھا۔۔ مگر بڑوں کی بات ماننی چاہیے۔


آج چودہ اگست ہے۔ اسی پہ خوش ہو لیتے ہیں۔ چینیوں نے ایک سیٹلائیٹ بنا کر چھوڑ دیا۔ جس کو بنتے ہوئے سپارکو والے دیکھتے رہے۔ جشن آزادی کا تحفہ پاکستانی سیارہ۔ اللہ اکبر۔ پاکستان زندہ باد۔۔ یہ نصیب۔۔واللہ۔ لوٹنے کی جا ہے۔ کاش ہمارے ہونہار انجنیئیرز یہ کام پاکستان میں کر سکتے۔ مثبت پاکستان کا مطلب منفی ہندوستان لینے والے احباب جب پڑوسی کے کسی تجربے کی ناکامی پر ناچتے ہیں تو جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے یہ کام اپنے ملک میں کیا۔ اپنی افرادی قوت کی تربیت کا سامان بہم پہنچایا۔ ادھر ہمارے۔۔ لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور۔ چین ہمارا سرپرست نہ بنتا تو شائد ہم آج بغلیں بجانے کے بھی قابل نہ ہوتے۔۔ مجھے تو اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کی نوکری پہ اگر کبھی لات ماری۔۔ یا یوں کہیے کہ امریکہ کے معاشی حالات اتنے بگڑے کے مفت کے ملازم کی بھی جا نہ رہی تو ہم شائد چینی کو سرکاری اور دفتری زبان بنا لیں گے۔ بطور قوم ہمارا شعور شائد سو چکا ہے۔ ہم اگلی نسلوں کو صرف نفرت اور تنگ نظری ترکے میں دے رہے ہیں۔ ہم ذہن کی تمام بتیاں گل کرکے اپنی سوچ سے دنیا منور کرنا چاہتے ہیں۔ اور قومی غیرت کے کیا کہنے۔ بقول ایک مہربان۔۔ سبحان اللہ ماشاءاللہ کانفرنس اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ فرینڈز آف پاکستان جیسے گروہوں کو ہم باوا کے منشی سمجھ بیٹھے ہیں۔ ادھر کچھ ہوا ادھر کشکول بردار چل پڑتے ہیں۔ دے جا سخیا راہ خدا۔۔


آئیے اس دن خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارا شعور جاگ اٹھے۔ ہم انسان کی قدروقیمت سے آگاہ ہو جائیں۔ ہم اپنی اگلی نسلوں کو کم از کم بھبھسے ہوئے ذہنوں کا ترکہ مت پہنچائیں۔
مولا شہرِگلاب سلامت

5 comments:

  1. جشن آزادی مبارک بڑے بھائی
    صرف رافعہ جی ہی کیوں؟؟؟ میں نہیں ہوں کیا؟؟؟ :(
    اب سپارکو کی شان میں کیا کہوں، جو سچ منہ سے نکالوں جوتے پڑ جاتے ہیں، جو سپارکو کے اندر تک پہنچا ہو وہی یہ جانتا ہے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں باقی رہی قصیدہ گوئی تو وہ تو ہمارے یہاں ہر چیز کی ہی کی جاتی ہے چاہے جیسی بھی ہو

    ReplyDelete
  2. جشن آزادی مبارک

    بلاگ ہمیشہ کی طرح بہتتتتت اچھا ہے۔۔
    اور بالکل ٹھیک ٹھیک لکھا ہے آپ نے۔
    اور دعا پر بہتت بار آمین ثم آمین

    ReplyDelete
  3. بہت عمدہ

    احمر

    ReplyDelete
  4. پکانے کی طرح لکھنے کا مسئلہ بھی کافی ٹیڑھا ہے۔
    رینگنا برا نہیں، بشرط یہ کہ اسے جاری رکھا جائے.
    :D

    ReplyDelete