صاحبو پچھلی تحریر ڈرتے ڈرتے پیش کی اور پھر قائرین کی فطانت دیکھتے ہوئے زیرِزمین ہوتے ہی بنی، آپ سے کیا پردہ کہ عاجز کے روانی اور فصاحت و بلاغت جیسے مکروہاتِ دنیوی سے بعینہِ وہی مراسم ہیں جیسے اپنے محبی اعجاز بٹ صاحب کے کرکٹ سے ہیں۔ سو کہنے میں باق نہیں کہ احقر کو دریا سے سوکھا نکلنے کا وہ وصف جسے لوگ بڑے جہد سے حاصل کرتے ہیں، بفضلِ تعالیٰ آغازِ سفر سے ہی زادِ سفر کے طورپہ میسر رہا ہے۔
 ہمارے بعد نہ اس راستے گیا کوئی


سو اس اعتراف نامہ کے ساتھ ایک اور "شاہکار" پیشِ خدمت ہے۔




یادش بخیر۔ کیا بچپن تھا۔ اپنے نصف قطر میں آنے والے ہر بزرگ سے اٹھنی اینٹھ کے کولا سے شغل فرمایا جاتا جو فی زمانہ ہمارے لیے بادہ ناب سے بڑھ کر ہی تھا، کہ اس سے بڑھیا عیاشی کا تصور تک اس وقت ہماری سوچ سے کالے کوسوں دور تھا۔ اسی کولا کے خمار میں بہکے بہکے پھرتے۔ اور لطف کی بات تو یہ ہے کہہ اسی ہفتہ وار کولا کے خمار میں ڈان جوآن بنے پھرتے۔ صد شکر کہ شمشیر و سنا کا زمانہ لد گیا تھا اور کلاشنکوف کا ابھی ہم تک پہنچا نہیں تھا ورنہ ہم میں سے اکثر کولا کے نشے میں ہونے والی ڈوئیل میں کام آ جاتے۔


ہمارے وقت یعنی ازمنہ قبل از بالغ نظری میں دو اخبار تھے اور ایک ٹی وی چینل، جو عام طور پہ آگہی جیسی بیماریوں کا کافی و شافی علاج تھا۔ دس پندرہ ماہ پہلے کے عالمی تجزیات کو جس طرح حالاتِ حاضرہ کا نام دے کر مے خواروں کی دلجوئی کا بندوبست کیا جاتا وہ سب دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ چھ بجے والی خبروں میں طویل العمر نیوز کاسٹرز گھٹنوں پہ ہاتھ رکھے مادر ملکہ سے ہمکلام ہونے کی مشق کرتے اور پھر نو بجے وہی کام آسان مگر جیستاں اردو میں ہوتا کہ اردو میں مادر ملکہ کی بولی کافی ادق ہے۔ مطمع نظر شاید یہ تھا کہ مدحِ سرکار کے علاوہ کوئی چیز کسی کی سمجھ میں نا آ سکے۔


آج کل تو اخباروں اور خبروں کی اتنی بھیڑ ہے کہ ذہنوں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں۔ کسی معمولی سی خبر کے بھی پیدا ہوتے ہی اس کی کوریج شروع۔ اب تو للو کے چھینکنے پہ بھی بریکنگ نیوز چل جائے، آدھ انچ موٹے قلم سے آٹھ انچ لمبی بے مقصد سرخیاں ڈال کر ضمیے بھرے جاتے ہیں۔ خاص طور پہ شام کے اخبار تو فلمی ستاروں کی شناسی کے گر عوام کو حفظ کرانا اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں۔


خیر ذکر چل رہا تھا ہمارے بچپن کا تو صاحبو اس وقت بچہ لوگ کو پانچ بجے والے کارٹون اور کبھی کبھار آٹھ بجے والے ڈرامے کے علاوہ ٹی وی کا قرب تہواروں پہ ہی نصیب ہوتا، وہ بھی خوش قسمتی سے، ایسی خوش قسمتی جس میں بہت سے اگر مگر پھولوں کی طرح کڑھے ہوتے۔۔اگر ابا نماز پڑھ کر دوستوں کے پاس بیٹھ گئے اور وہیں سے دادی کی قبر یاد آ گئی تو دس بجے والا عید شو دیکھا جا سکتا ہے مگر اس وقت بہو بیٹیاں بانہیں چڑھائے اماؤں کی کمان میں احاطہ نظر میں آنے والی ہر منقولہ و غیر منقولہ شے کی رگڑائی میں مصروف ہوتیں اور ان مراحل سے تو بڑے بڑے جگرے والے پناہ مانگتے ہیں۔ شومئی قسمت سے ٹی وی والا کمرا کھلا مل جاتا تو بھی عید شو کے ساتھ پسِ پردہ موسیقی کے طور پہ فرنیچر گھسیٹنے کی آوازیں، ہر پانچ منٹ بعد بہنوں کی مدد کا حکم، عید شو کو بھی خبر نامہ بنا ڈالتے۔ گیت چل رہا ہے۔ “میں نے پیروں میں پائل تو باندھی نہیں ۔۔کیوں صدا آ رہی ہےےے۔۔ سو نان لانے ہیں ابھی چلے جاؤ ورنہ انتظار کرنا پڑے گا، تمہارے بھائی ٹماٹر لیتے آئیں گے۔ ان کو تمہارے پیچھے بھیج دوں گی”۔ سو اس جادوئی ڈبے اور اس میں بسنے والی دنیا کا قرب ہمیں عیدین پہ بھی قسمت سے ہی نصیب ہوتا۔ کافی عرصہ بعد دو ایک نجی چینل شروع ہوئے سمجھئیے چھپر ہی پھٹ گیا مگر اس وقت ہم اس قسم کی حاجتوں سے بے نیاز ہو چکے تھے۔
اپنی دنیا آپ کر پیدا اگر زندوں میں ہے


اس ماحول میں ہم لوگ کیونکر بالغ ہوئے؟۔ ہمیں کافی عرق ریزی کے بعد یہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ اس امر میں بھی قادرِ مطلق کی قدرت پوشیدہ ہے، اس کے بنائے ہوئے کارخانے میں جہاں کلی سے پھول نکلتے ہیں، وہیں ہم بھی جوان ہو گئے۔ ورنہ یہ حالات بچوں کو جوان بنانے والے ہر گز نہیں تھے۔ ہائی سکول میں یہ حال تھا کہ ہر مستور و ملفوف شے کو دیکھ کر رستہ بدل لیتے اور گھنٹوں قدرت کے اس حسین اتفاق پہ مسرور رہتے۔ ویسے اس وقت اکثر اشیاء مستور و ملفوف ہی ہوا کرتیں کہ سڈول بانہیں دیکھنے کو اہلِ نظر اپنے اینٹینے دوردرشن کے حساب سے سیٹ کرتے۔ جو اس زمانے میں عموماً اور رمضان المبارک میں خصوصاً مومنین کے قلب و نظر کے انشراح کا خاصا اہتمام کرتا۔ ہم ایسے کور چشم یہ مناظر چشمِ تصور سے دیکھ کر دل کی سیاہی سے ان کی تفاصیل رقم کیا کرتے


دیکھا جائے تو یہ جذبات اتنے بیہودہ بھی نہیں، بس اظہار کا طریقہ غلط ہے۔ جس کے نتیجے میں نفسیاتی الجھنین جنم لیتی ہیں۔ ہر ذی روح کا مخالف جنس کی طرف کھچنا قدرت کا مسلمہ اصول ہے۔ انسان کی اس جبلت پہ جتنے چاہیں پہرے بٹھا لیں یہ ابھر کر رہے گی۔ یہاں نہیں تو وہاں۔ اور وہاں بھی تو قسم ہا قسم کی نعمتوں کے ساتھ ساتھ حور و قصور کا ذکر ہے۔ بلکہ ستر ستر تک کا ہے۔ صاحب یہ عجیب چیز ہے۔ اس خواہش کو دباؤ کے تو جنس کے سوتے کہیں اور نفسیاتی نالیوں کے رستے بہہ نکلیں گے۔ اس جبلت کا اظہار کہیں نا کہیں ہو ہی جاتا ہے۔ اندھا ہومر کس انداز میں ہیلن آف ٹرائے کا ذکر کر گیا، اس کے اندھے پن پہ رشک آتا ہے، پرپیچ الجھنوں اور کم مائیگی نے ہیلن آف ٹرائے کو جنم دیا، بقول یوسفی صاحب اجنتا کے غار دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جواں راہب حسین ترین عورت بنانے کے چکر میں ہی بڈھے ہو گئے۔ ان تصویروں میں جو بھوک نظر آتی ہے وہ کسی بھی زاہد کا رستہ کاٹ سکتی ہے۔ صاحبو اتنی سی بات سمجھ نہیں آئی کہ جس چیز کو چھوڑ ہی دیا تھا اس کی تصویروں میں اتنا تناسب، اتنے تیکھے نقوش اور ایسی گولایاں کہاں سے آ گئیں۔ شاید اسی لیے دینِ فطرت میں اس جذبے کی تکمیل کا حکم ہے۔


*****


معلومات کے جن بیش بہا خزانوں کی تلاش میں ہماری نسل خاصی ذلیل و خوار ہوئی تھی، آج کل دودھ پیتے بچوں کی زبان پہ ہیں۔ آپ کو ناگفتنی معلومات کے ان جہانوں کی سیر کرائیں گے کہ عقل دنگ رہ جائے۔ ہمارے ہمدمِ دیرینہ آغآ اس مسئلے پہ بڑا کڑھتے ہیں۔ "ہمارے وقتوں میں یہ آسانیاں کیوں نہ میسر ہو سکیں تب تو کواڑوں کے پیچھے کی خبر لانے کو چلے کاٹنے پڑتے تھے" آغا پھر بھی خوسقسمت رہے کہ دو دو خوشفہمیاں پال رکھی تھیں مگر اپنی طرف تو یہ عالم تھا تانیث کے نام پہ فقط ایک سائیکل کا قرب میسر تھا۔ حال تو آغا کا بھی برا ہی تھا کہ جناب ان خوشفہمیوں کی ترکیبِ استمعال سے ہی نا واقف تھے، بہت ہوا تو نظر بھر کے دیکھ لیا اور اسی نظر کے فسانے سنا سنا یاروں کو ہلکان کرتے رہے۔ ویسے یہ بات ہمیں آج تک سمجھ نہیں آ سکی آغا اپنی تمام تر خباثتوں کہ باوجود قلعہ نما برقعوں کے اندر موجود اشیاء کا اس قدر تفصیلی مشاہدہ کیسے کرتے تھے کہ اس کام کے لیے صرف خباثتوں کا وجود بہت ناکافی ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے آغا جو اپنے گھر میں ہل کے پانی پینا بھی گناہِ کبیرہ گردانتے تھے ان خوشفہمیوں کے اشارہ ابرو پہ کولہو کے بیل کی طرح جتے نظر اتے، ایک چکر میں دودھ لایا جا رہا ہے اور اس سے اگلے میں دہی۔۔اور پھر اگلے دو چکروں میں غیر ضروریات۔


عرصہ ہوا چھوٹا بھتیجا اس وقت چوتھے یا پانچویں درجے میں تھا۔ ایک روز کتاب اٹھائے اور منہ بسورے پاس آ بیٹھا۔ ان حضرت کا بچپن سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ جہاں کوئی بات منوانی ہو منہ بسورنا شروع کر دو۔ مجھے کچھ اندزہ ہو رہا تھا کہ مدعا کیا ہو سکتا ہے۔ اپنا عزیز از جان کمپیوٹر اور ایک بےضرر سی کارٹون سی ڈی اس کے حوالے کرنے کی کوشش کی تو جواب آیا کہ پڑھنا ہے اور اماں کے پاس وقت نہیں۔ بڑی حیرت ہوئی کہ اولاً تو یہ حضرت ناچیز کے آدھے نام کے ساتھ کچھ عادتوں میں بھی شریک رہے ہیں جن میں سر فہرس نصابی کتابوں کی نادر مخطوطوں کی طرح حفاظت ہے، سال میں ایک آدھ بار ہی امتحانوں کے نزدیک ہزارہا اختیاطی تدابیر کے بعد کھولا جاتا تھا۔ باقی عرصہ بیزار پروفیسروں کی طرح ان الماریوں کو گھورتے گزرتا جنہیں ان کی جائے عافیت ڈکلیئر کر دیا جاتا تھا۔ اور ثانیاً بھابھی بیگم کا تربیتِ اطفال و پدرِ اطفال کے معاملے میں خبطی ہونا ہے۔ مختصراً ان کے جیتے جی اس قسم کا انکار نا ممکنات میں سے تھا۔ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر پوچھ بیٹھے کیا ہے۔۔وہ حضرت بھی شاید انتظار میں بیٹھے تھے۔ مونڈھا میری کرسی کے نزیک کرتے ہوئے کتاب تھما دی۔۔۔۔۔ستم ظریفوں نے طہارت کے باب میں ایسا اشارہ دے دیا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بڑی مشکل سے ٹالا۔ یہ الگ بات ہے کہ جس بچے کو معصوم سمجھ کے الجھنوں کے طویل سلسلے سے بچانا چاہا وہی چند دن بعد یاروں سے اسکا مفہوم سمجھ کر ہماری جانب ایسی معلمانہ شفقت سے دیکھ رہا تھا جس کا مطلب کچھ یوں بنتا تھا۔۔۔۔۔بیچارہ گنوار ہی رہ گیا۔۔۔


ایک شام کی بات ہے، آغا کے ساتھ رمی کھیل رہے تھے کہ اچانک آغا کے پیٹ میں فلم بینی کے مڑوڑ اٹھنے لگے۔ اب آغا آغا ہیں۔ ان کو کسی بات سے باز رکھنا بھینس کو آرکسٹرا سنوانے کا مترادف ہے۔ ایسی ہی ایک بحث میں ہار مانتے ہوئے اس خاکسار کو اردو زبان کے ذخیرہ الفاظ میں کافی اضافے کرنے پڑے تھے۔ اکثر ان کے دلائل آستین چڑھانے سے شروع ہوتے ہیں اور مکہ بازی پہ ختم۔ سو اس دن بھی ہمیں ہار مانتے ہی بنی۔ ۔کوئی ہانگ کانگ کی فلم تھی مار دھاڑ وغیرہ سے بھرپور۔ اب چونکہ فلم کا انتخاب آغا نے کیا تھا اسی لیے صد فیصد یقین تھا کہ فلم میں مار دھاڑ سے کہیں زیادہ وغیرہ کا وجود ہو گا،اور وہی ہوا یعنی روح افزاء فلم تھی۔ ہم لوگ وغیرہ وغیرہ میں محو تھے کہ اچانک آغا کی بڑی بہن نے دروازے سے پکارا اور اپنا نونہال اندر دھکیلتے ہوئے ذرا درزی تک جانے کی نوید سنائی۔ وہ صاحب بھی آغا کی گود میں خاموشی سے بیٹھ کر فلم دیکھنے لگے ۔ بچے کی موجودگی کی وجہ سے اس ناچیز نے مقاماتِ آہ و فغاں گزارنے کی کوشش کی جو آغا نے بزورِ بازو ناکام بنا دی کہ بچہ ہی تو ہے اسے کیا علم چیزوں کا۔ اور شام کو اسی بچے نے اپنی رمزوں میں فلم کے وغیرہ وغیرہ کئی سو گنا بڑھا کے نشر کر دئیے۔۔۔۔نانو—ماموں مووی—-ہو ہائے—گندا بچہ۔


مت پوچھئیے اس کے بعد کیا ہوا