Monday, September 20, 2010

دوسرا درویش



دوسرا درویش

عجیب سی بے کلی طاری ہے۔ کسی کام میں جی نہیں لگتا۔ پہروں خالی الذہنی کے عالم میں آنلائن بیٹھا رہتا اور دوست بلاوے بھیج بھیج کر تھک جاتے۔ ایک خالی پن ہر چیز کو نگل رہا تھا، عجیب تر محسوسات تھے جیسے عین میدانِ جنگ میں کسی سے زرہ بکتر چھین لی گئی ہو۔ پچھلے کچھ عرصے سے دل پہ ایک عجیب سا سہم طاری ہے۔ اسی عالم میں پاکستان سے فون آیا کہ دوسرا درویش اٹھ گیا ہے۔

لگا جیسے یکدم کسی نے اوجِ ثریا سے تحت الثریٰ پہ دے مارا ہو۔ ایک دہائی یاد آنے لگی۔ وہ ٹیلیفون کالز یاد آنے لگیں جن کا مقصد صرف خیر خیریت کے بہانے دعائیں دینا تھا۔ عجیب بات ہے نیرے بہت ہی کم آنسو نکلے۔ حالانکہ درویش سے میرے قلبی تعلق کو جاننے والوں کا خیال تھا کہ میں ٹکت کٹا کر پاکستان جا پہنچوں گا

------------

دوسرے درویش سے میرا تعلق کب استوار ہو یہ میں بھی نہیں جانتا۔ شاید میں اس وقت پہلے درویش کے جسد خاکی پہ یادوں کی۔ دو مٹھیاں ڈال کر ایک سنگی قبر کے کتبے پہ دل گرفتہ بیٹھا تھا جب دوسرے درویش کا ہاتھ میرے کندھے پہ ٹکا۔ فطری طور پہ میں رشتوں کے معاملے میں بڑا خود غرض ہوں۔ بالکل آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والی بات، مگر یہ پہلا درویش تھا جس سے میرا تعلق تھوڑے عرصے کا ہی سہی مگر اپنے اندر تمام تر شدائد سموئے ہوئے تھا۔ سو دل گرفتگی کا ایک نیا جہاں اپنے در وا کیے ہوئے تھا جب دوسرے درویش نے مجھے گلے سے لگایا اور دس سال پہ محیط اس طویل تعلق کو شروع کیا جس کے دوران دوسرا درویش پہلا درویش اور پھر واحد درویش بن بیٹھا۔

مگر بات یہ ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں کبھی درویش بننے کی کوشش نہیں کی تھی۔ حضرت، درویش یا بابا کہہ دو تو لڑنے مرنے پہ تیار۔ دنیوی لحاظ سے فقط گریجویٹ مزدور جو سارا دن اپنے اور اپنے خاندان کے لیے رزقِ حلال کی جدوجہو کرتا پایا جاتا اور رات کو زاہدِ شب زندہ دار، شاید ہی کوئی ایسا جمعہ ہو جب میں نے اسے کچھ کھاتے پیتے دیکھا ہو، بلکہ عام دنوں میں بھی کم ہی حلق سے کچھ نیچے اترتا کہ نجانے کون کون سے روزے رکھنے کی عادت تھی۔ یہ والا روزہ وہ والا روزہ فلاں نوافل ڈھمکاں اوراد، شاید ہی کبھی تین چار گھنٹے سے زیادہ نیند لی ہو۔ نجانے کون کون سے روگ پال رکھے تھے۔

میری اور اکثر جوان لوگوں کی عادت ہے کہ ایسے کیسز سے دور ہی بھاگتے ہیں۔ بس نماز پڑھ لو اور دین پہ اسے احسانِ عظیم سمجھو۔ بڑا تیر مار لیا چند روزے رکھ لیے اب تو اللہ میاں پہ لازم ہے کہ ہمیں جنت میں کوٹے کی سیٹیں الاٹ کرے، میں تو خیر اتنے کا بھی رودادار کم ہی رہا ہوں کہ آج کل اللہ کی حب اور اس کی بندگی جیسے دقیق مضامین فقط دینیات پاس کرنے کو رٹے جاتے ہیں۔ اور عشقِ رسولﷺ کا داخلہ ہماری درسگاہوں میں کم ہی ہوتا ہے۔

درویش کی سب سے بڑی خوبی ہم آوارہ گردوں کو غیر محسوس طریقے سے مشرف بہ اسلام کرنا تھا۔ عجب بات ہے کہ ہمیں کبھی بھی درویش کی صحبت میں بوریت کا احساس نہیں ہوا۔ صحبت کیا تھی بس چند لوگ غمِ دنیا پہ گفتگو کی محفلیں سجاتے جو عموماً درویش کی موجودگی کے باعث دھیرے دھیرے چوتھے پانچویں بعد سے ہوتی ہوتی اللہ پہ منطبق ہوتی اور حاصلِ کلام ہمیشہ یہی نکلتا کہ ہم لوگ بندگی کے دائرے سے نکلتے جا رہے ہیں اسی لیے یہ مشکلات پماری جان نہیں چھوڑتیں۔۔ پہلی بار کسی کو پچھلی صفوں سے قیادت کرتے دیکھا تھا۔ کسی تازہ ترین خبر یا کبھی کبھی ہماری کسی رنگین مصروفیت سے بات شروع ہوتی اور درویش خاموشی سے پہلے ہماری بات سنتا۔ بات آگے چلتی اور اس کے بعد اچانک ہی ہم اللہ اور بندے کے تعلق پہ گفتگو کرتے پائے جاتے۔ درویش نفاذ سے زیادہ نفوذِ اسلام کا قائل تھا، سو جبر یا حکم کا گزر کم ہی ہوا ان محفلوں سے اور مزے کی بات ہے کہ ہم سب ہی بندے دے پتر بن گئے۔

جوانی میں سب ہی عقلیت پسند ہوتے ہیں اور اسی زعم میں ماننے کی سہولت سے جان چھڑا کر جاننے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ اکثر تو اسلام کی بنیادوں پہ ہی شکوک کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں۔ دین میں عقلیت کا دخل ہے مگر اس سے پہلے ماننے کی گھاٹی سے گزرنا پڑتا ہے۔۔۔لا إله إلا الله محمد رسول الله کی گھاٹی مان کر عبور کرنا زیادہ آسان ہے کہ اسے جاننا جان کا روگ بن جاتا ہے۔ تو بات ہو رہی تھی کہ ہم میں سے اکثر عقل و فلسفے کے گھوڑے دوڑاتے دوڑاتے حدود سے نکل جاتے ہیں اور ایسے گمراہ سواروں کا ہانکا کرنا درویش کا مشغلہ تھا۔

درویش کی زنبیل ایسے عقلی دلائل نکلتے کہ خدا کی پناہ۔
میرے ہاتھ پہلے درویش کے ذخیرہِ کتب سے تراجم، بخاری شریف کی ایک جلد، حجۃالاسلام اور دیگر آئمہ کی چند کتب لگیں تھیں جو میں چاٹ کر پھنے خان بن چکا تھا۔ میرے پر جھاڑنے میں درویش کی حکمتِ عملی بڑی زبر دست تھی۔ کوئی نئی حکایت سنی جاتی اور اس پہ ایسے سوالات ہوتے کہ مجھے ہار مانتے ہی بنتی۔ اس کے بعد اسی حکایت یا مسئلے پہ نئے سرے سے روشنی ڈالی جاتی۔ شاید دو ماہ میں ہی میری علمیت کا سورج نصف النہار سے150 کے زاویے پر آ گیا تھا۔

شاید دینی تعلیم بھی حاصل کی تھی جس کا عدم ثبوت زبان میں عربی تراکیب کی غیر موجودگی تھی۔ تصدیق کے لیے فقط اہلِ خانہ ہی میسر تھے۔ بہر حال علومِ دینی اور منطق پہ دسترس کئی قسم کی اشارے بازی کرتی۔ مگر اس اشارے بازی کی تمام تر نفی اپنی ذات تھی، جہاں ذرا اس نیت سے سوال کیا جاتا کہ علمی مقام سامنے آئے یا تو ایسی بات ہوتی کہ ہم سب ایک سو ایک سوالات میں الجھ کر علمی پسِ منظر کی جان چھوڑ دیں یا پھر اکثر ٹھس۔ میں نہیں جانتا ایسے وقت میں چہرے پہ کھدا نظر آتا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلے درویش نے بوجہ مجھے کبھی توجہ کے قابل نہیں جانا تھا مگر دوسرے درویش نے کسی اور کو،،کئی ہوں گے میرے جیسے بے عمل جن کی اصلاح کا بیڑا اٹھا رکھا ہو گا مگر مجھے یہی لگتا ہے کہ وہ توجہ صرف میرے لیے ہی مخصوص تھی۔ اور شاید درویش کی کمائی میرا سجدہ ہی تھا کہ میں مکمل بے عمل اور بے دین ہو چکا تھا۔

شاعری کا چسکا تو کافی بچپن سے تھا۔ مولانا روم کا ایک ترجمہ کہیں سے ہاتھ لگا۔ کسی نے کہہ دیا کہ اصل کا اپنا ہی مزا ہے۔ اب میں والدہ محترمہ کے سر ہو گیا کہ مجھے گلستان و بوستان سے شروع کرایا جائے۔ یہاں تک کہہ دیا کہ آپ نے ایم اے میں نقل کی ہے ورنہ یہ تو بنیادی کتابیں ہیں آپ کیوں نیں پڑھا سکتیں۔ بس جی پھر ایک لمبی داستان ہے کیسے مجھے درویش نے اپنے سایہِ عاطف میں جگہ دی اور کلیاتِ اقبال سے شروع کرایا۔ یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ درویش نکتہ آفرینی اور تغزل میں حافظ و ہمنوا کا بڑا بھائی ہے۔ یہ واحد صنف ہے جس کی میں نے ذرا جم کر دو ایک ماہ تربیت لی اور بھاگ نکلا کہ ایک مصراع نہیں موزوں ہوتا تھا(اب بھی یہی حال ہے) ادھر درویش صاحب روز نئی اپچک لیے بیٹھے ہوتے۔ پہلے مہینے ہی میرا پِتہ پانی ہو گیا اور میں تقطیع کو سات سلام کر کے بھاگ نکلا۔ فیصلہ ہوا کہ صرف خیال پہ بحث کی جائے گی۔

اس دور میں درویش نے شیو کمار بٹالوی۔ سلطان باہو، شاہ ہاشم دریا دل۔ وارث شاہ۔خواجہ غلام فرید اور میاں محمد بخش سے میرا تعارف کرایا۔ ان میں سے میری جان کے اصل روگ شیو کمار اور میاں محمد بخش بنے۔ کیا شاعری ہے صاحب۔ خاص طور پہ میاں صاحب کی۔ ایک جذب کی سی کیفیت ہے۔ لہریں سی نکلتی ہیں۔ان کے ایک شعر کا کچھ یوں ترجمہ کیا تھا اس زمانے میں، پہلا مصراع ذہن سے محو ہو گیا ہے اور یہ موجودہ مصراع شاید خارج از بحر ہے

جس دل میں بھی عشق سمایا اس کا کام ہے رونا
سنجوگ پہ رونا، بچھڑتے رونا، آتے جاتے رونا

جنہاں تناں وچ عشق سمانا رونا کم اوناہاں
ملدیاں رونا، وچھڑدے رونا، رونا جاندیاں راہاں

شعر و شاعری کے یہ اسباق بمشکل دو ماہ ہی چلے ہوں گے کہ میرا دل اچاٹ ہو گیا۔ ہٹاؤ بھئی میری نثری نظم اگر نہیں پسند آتی تو میرے سے یہ والی شاعری بھی نہیں ہوتی۔ اس کے بعد مجھے عربی سیکھنے کا سودا ہوا مگر شکر کہ عربی کافی مشکل زبان ہے سو بات لغات کی خریداری سے آگے نہ جا سکی۔ بہت ہوا تو چند الفاظ جوڑ کر ایک سطر بنا لی۔ اور اس کو مصراع کہہ کر اتراتے رہے۔


-------

اسی دوران میں تحصیلِ علم کی خاطر جس درسگاہ میں پہنچا وہ درویش کے دولت خانے سے زیادہ نزدیک تھی۔ گفتگو کا چسکہ لگ چکا تھا سو کم و بیش روزانہ ہی جا پکڑتا۔ کبھی کبھی خوشقسمتی سے درویش کے ساتھ تنہائی میسر آ جاتی تو پہلا سوال یوں ہوتا،"سنا بلی رکوع چ کنی واری تسبیح کرنا ایں" یا پھر" عصر دیاں سنتاں موقدہ نیں یا غیر موقدہ" اب مجھے تو گفتگو کا چسکا تھا جس کے لیے ایسے سوالوں کے بھی غلط سلط جواب دئیے جاتا۔۔لیکن درویش کی اسی حکمتِ عملی نے مجھے مسجد پہنچا کر ہی دم لیا۔

اس کے بعد تعلقات کا وہ دور شروع ہوا جسے میں زندگی کا حاصل کہہ سکتا ہوں۔ درویش نے ریٹائرڈ لائف شروع کی جس کا مطلب ہماری ٹولی کے لیے وقت ہی وقت تھا۔ اکثر عشاء کی نماز کے بعد جا پکڑتا اور اس کے بعد درویش کے آنگن میں بیٹھا جاتا یا کبھی کبھی نہر والی سڑک پر چہل قدمی شروع ہو جاتی۔ اور غمِ حیات کا مداوا کیا جاتا۔ مگر حیات تو درویش کی نظروں میں ایک نعمت تھی جس کا صحیح استمعال سب پہ فرض تھا۔ روزمرہ مسائل سے ایسے ایسے نکتے نکالے جاتے کہ کتابیں لکھی جا سکیں۔ کوئی بھی تذکرہ ہو گھوم پھر کر درویش کی سوئی بندگی اورﷺ رسول کی اطاعت پہ آ رکتی۔ اور پھر چل سو چل۔ پھر درویش کےمنہ سے بندگی اور اطاعت کے پھول جھڑنے شروع ہو جاتے اور نوافل کا وقت ہونے تک جھڑتے ہی چلے جاتے۔

اس سلسلہ میں درویش کا عقیدہ یہ تھا کہ اسلام میں مکمل داخل ہوا جائے۔ ہوس اور طمع سے پرہیز کیا جائے اور جہاں تک ہو سکے فرامینِ رسالت مآب پہ عمل کرو۔ زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ درویش کی نطر میں مسکلات کی بڑی وجہ ایثار کا ناپید ہونا تھا۔ میرا محبوب ترین موضوع تصوف تھا کہ مزے مزے کی دلنشین باتیں سننے کو ملتی ہیں، تصوف میں بھی کرامتیں اور رویائے صادقہ میرے آل ٹائم فیورٹ تھے۔ درویش کو بس ذرا چابی دینے کی ضرورت پڑتی اور میں شروع۔ مگر درویش کے نزدیک اگر تصوف کا مقصد انہی چیزوں کا حصول تھا تو پھر کاہن اور صوفی میں کوئی فرق نہیں۔ تصوف تو خدمت اور بندگی کا نام ہے۔۔۔فقیر خالی پیٹ سوتا ہے۔ صوفی کی ساری عمر مخلوقِ خدا کی خدمت اور انہیں راہِ ہدایت دکھانے میں نکل جاتی ہے۔ کرامات کی ضرورت تو وہاں ہو جہاں لوگ مانتے نہیں یا آپ خدمت کی حد عبور کر چکے ہوں۔

تصوف اور فقر کے بارے میں درویش کا فلسفہ نرالا تھا۔ رہبانیت سے تو جیسے ازلی دشمنی تھی۔ رسولؐ کی حیاتِ مبارکہ سے حوالہ دیا جاتا کہ ان سے اوپر کون ہے؟ جب انہوں نے رہبانیت کی بجائے مخلوق میں رہ کر اس کی رہنمائی کی تو باقی لوگ دھڑا دھڑ جنگلوں کا رخ کیوں کرتے ہیں؟ ایک بار میں نے حضرت اویس قرنی کی مثال دی تو فوراً کہا ان کی ماں جب تک حیات تھیں وہ بھی جنگلوں کی طرف نہیں گئے۔ باقی ہما شما کون ہیں۔۔سالک کو راہِ سلوک پہ قدم رکھتے ہی مخلوق کی رہنمائی شروع کرنی چاہئیے۔

ان تمام جہات سے سوا درویش کی زندگی میں ایک اور جہت بھی تھی۔ فقر و تصوف کی، جو تا دمِ آخر اکثر اہلِ خانہ سے بھی پوشیدہ ہی رہی۔ آج کل میں نے کم ہی لوگوں کو حلال کاروبار سے لاکھوں کما کر ایک چھوٹا سا گھر قرض سے خریدتے دیکھا ہے۔ یہ امرِ واقع تھا کہ رقوم ہاتھ آتے ہی ناداروں کی یاد ستانے لگتی۔ تمام عمر جس کاروبار کو حلال طریقے سے پروان چڑھایا اس میں بدنیت لوگوں کی آمد غیرتِ فقر نے گوارا نہ کی۔ چلتا کاروبار سستے داموں بیچ کر نکل گئے۔۔

کبھی بھی کشف اور تصرف جیسی چیزوں کو استمعال کرتے نہیں دیکھا۔ اپنا ہی کہنا تھا کہ کم ظرف لوگ تھوڑی کو بہت جانتے ہوئے اچھلنے کودنے لگتے ہیں۔ مردوں کو یہ بات زیبا نہیں دیتی۔ رسولؐ نے جیسی زندگی گزاری ویسے گزارو۔ ان سے زیادہ اللہ کا کرم کس پہ ہوا ہو گا۔ ہمیں بھی درویش کی اس سمت کا بس اندازہ ہی تھا۔ کیونکہ ایسی بات شروع ہوتے ہی نماز یا دوسرے شرعی احکام کی گنتی شروع ہو جاتی۔۔یہ اندازہ بھی ہم لوگوں نے وفات سے صرف دو ماہ قبل قائم کیا کہ درویش صرف درشنی پہلوان یا نیکو کار بوڑھا ہی نہیں ہے اور پھر درویش چلا گیا۔


ــــــــــ

درویش نے مجھے کیا سے کیا بنا ڈالا۔۔سوختہ قلب کو جینے کا انداز دے دیا۔۔۔یہ چند یادیں دس سال کی اس رفاقت سے لکھ رہا ہوں جس کی ہر ساعت ستارہ ہوئی۔
میں پریشان ہوں۔۔روتا ہوں تو درویش کا کہا ذہن میں آ جاتا ہے کہ جوانمردوں کو صرف خشیت الٰہی یا پاسِ رسولؐ کا گریہ ہی زیب دیتا ہے۔۔۔۔ روائج کے مطابق فاتحہ کہنے کی کوشش کرتا ہوں تو الفاط نطق کا ساتھ چھوڑنے سے انکاری ہیں۔ ۔۔۔۔چیریٹی کرنے کی کوشش کی تو وہ گھر یاد آ جاتے ہیں جہاں درویش کی وجہ سے چولہا جلتا تھا۔۔۔۔۔ بس ایک خالی پن ہے اور فیض کا یہ شعر گنگنا رہا ہوں


ایک بار اور مسیحائے دلِ دل زدگاں
کوئی وعدہ کوئی اقرار مسیحائی ک

No comments:

Post a Comment