Monday, January 24, 2011

بدنام منی


رات بھر میں امیر ہونے کا ایک ذریعہ پڑوسی بھی ہیں۔ حیرت ہے ڈیل کارنیگی اور دوسرے مشاہیر کا دھیان اس جانب کیوں نہ گیا ورنہ آج بلو دروازوں والے کے سابقہ پڑوسی خاصے خوشحال ہوتے۔ اور ہم اہلِ مشرق کے بال و پر کی افزائش بلکہ افزائشِ نسل کے مواقع بھی بہم پہنچتے رہتے کہ حکیم کارنیگی و دیگر علمائے کبار کی فکری اولاد اپنے ہان جالیونس، سقراط جیسے لوگوں کے پیرو فلسفہ زدہ بڈھوں سے کسی قدر زائد ہی ہے۔ علاوہ ازیں اس عدم توجہی نے ہماری نسل کو ادب کے ایسے ذخائر سے محروم کر دیا جو ازحد مفید ہوتے ہوئے بھی دلچسپ ہوتے کہ اس علم کی مروجہ کتب بلحاظِ افادیت تو حکم کا درجہ رکھتی ہیں مگر بلحاظِ تاثیر خواب آور ہیں سو ان سے زیادہ دیر تک افادہ حاصل کرنا خاصی نفس کشی اور خلل کا متقاضی ہے۔ خیر صاحب لکیر یٹنے سے کیا ملا ہے کسی کو جو ہمیں ملے گا سو خاکسار نے عمل کی ٹھانی ہے۔ اور آج کل اس سوچ میں غطاں و پیچاں رہتا ہے کہ پڑوسیوں پہ ازالہ حیثیتِ عرفی وغیرہ کا دعویٰ کیونکر دائر کیا جائے جبکہ اکثر معلومہ ومتعلقہ عدالتیں ان کے پچھواڑے کا درجہ رکھتی ہیں۔ میری مراد گھر کے پچھواڑے سے تھی جہاں عموماً بھینس وغیرہ کے قیام و طعام کا بندوبست رہتا ہے۔




کہنے میں کیا شرم راقم الحروف ان معقول اشخاص سے ہے کہ جن کے نزدیک لغت میں پڑوسی کا معنی اکثر و بیشتر نا معقول ہونا چاہئیے۔ مزید براں انہیں اس نامعقولیت کی سزا دینا ہمارے آئینی حقوق میں شامل اور فرض عین ہے۔ صدیوں کے تجربات سے ثابت شدہ امر ہے کہ اکثر پڑوسی انہی خصوصیات کا مرقع ثابت ہوتے ہیں جو آپ کی چھیڑ کے درجے تک جا پہنچیتی ہیں۔ عقل رکھنے والوں کے لیے اس سے بڑی نشانی کیا ہو گی کہ قریباً ہر مذہب میں پڑوسیوں سے بنا کر رکھنے کا کہا گیا ہے۔ نفس کشی کا اس سے بڑا اجتماعی اور مکمل ضابطہ کیا ہو سکتا ہے؟۔ میری دانست میں دینِ فطرت کے احکام کو تو مکمل دورہ کہا جا سکتا ہے " گھر بیٹھئیے خدا رسیدہ ہوں"۔ بہر حال ہم ایسے دنیادار سالہاسال کی نفس پروری اور شماتت ہمسایہ کے طفیل اِس نتیجہ پہ پہنچے ہیں سگ باش ہمسایہِ سگ نہ باش۔ اور اس کلیہ سے ہمدمِ دیرینہ چوہدری بھی مستشنیٰ نہ ہو سکے۔ یہ الگ امر ہے کہ شروعات میں جو چوہدری ہمارے پڑوسی بنے بعد ازاں انہی نے نامحسوس انداز سے مدتِ مدید تک راقم کو پڑوسیت کے عظیم درجات پہ فائز رکھا، خیر ان کے بارے میں خاکسار یوں بھی کچھ کہنے سے قاصر ہے کہ تاریخ نے جناب کے بارے میں قائم کردہ میرے ہر نظریے کو دھول ہی چٹائی۔ خود چوہدری نے بھی رشتہِ ہمسائیگی استوار ہوتے ہی ہیچ مداں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جو معقول نفوس نامعقول پڑوسیوں سے رکھتے ہیں۔ احقر کی بہت سے علتوں کے ثمت بالخیر میں حضرت کا بنیادی کردار رہا ہے نیز ان کے سنگ جو گھڑیاں بیتیں اس دور میں میرے نطق سے نکلی یوں سرِ بالیں رسوا ہوتی کہ بدنام بھی رشک کریں۔ فلم بینی اور برج جیسی دنیوی آلائیشات بھی احقر سے انہی نے دور فرمائیں کہ سینکڑوں مواعظِ حسنہ بھی وہ کام نہ کرسکتے جو ان کے رواں تبصروں اور ان کے مقابل ہارے روپوں نے کیا۔۔۔ المختصر جناب نے ہمیشہ راقم کو مثالی پڑوسی کے درجہ پہ فائز رکھا۔

یہ تو خیر مضامنِ معترضہ بر بنائے اقرار و توجیحِ حوادث و خبط ہائے رنگیں سے تھا جو یادِ ماضی کے ساتھ ہمیشہ ہی در آتے ہیں، اصل موضوع کی جانب رجوع فرماتے ہیں۔ میں کہہ رہا تھا کہ پڑوسیوں کے ذریعے امیر ہونے پہ غور و فکر جاری ہے۔

مروجہ طریقوں نقب زنی و عقد زنی کے امکانات صفر سے کچھ ہی نیچے ہیں کہ اولاً فطری شرافت اور اصلاً جبلی بزدلی ہر دو کے ارتکاب سے باز رکھے ہوئے ہے۔ علاوہ ازیں یہاں پڑوسیوں سے مراد قومِ پڑوسیاں ہے جس کی دیواریں نقب زنی کے واسطے اور مستورات و غیر مستورات عقد زنی کے واسطے غیر موزوں یعنی عاجز کی رسائی اور ہمتِ مرداں سے کافی باہر ہیں کہ بیچ میں ایک جانب ڈیڑھ دو ہزار سپاہ اور دوسری جانب سمندر ہیں اور ہمیں نہ تو استاد کی طرح جنگجو خاندان کا چشم و چراغ ہونے کا دعویٰ ہے اور نہ تیراک۔سو قدرتی طور پہ تیسرا رستہ ہی بچتا ہے جو نسبتاً محفوظ مگر کافی طویل ہے یعنی عدالتی چارہ جوئی، اگرچہ سراطِ مستقہم سے اس کابھی اتنا ہی تعلق ہے جتنا کلاشنکوف کا امن و امان

پڑوسیوں کی تازہ ترین مہم جوئی نے ارادوں کے لیے مہمیز کا کام کیا ہے۔ جب سے مسماة منی نے سرِ بازار رسوا کن مگر فنی محاسن کے لحاظ سے مکمل عضلاتی مثنوی ارشاد فرمائی ہے، سمجھئیے داد کے مارے یار لوگ بے حال ہوئے جا رہے ہیں۔ ہر سو مکرر مکرر کے نقارے بج رہے ہیں۔ آغا کہ بچپن سے ہی عفوانِ شباب کے ستائے ہیں ، مثنویِ منی کے حافظ ہو چکے ہیں۔ موصوف کی زبانِ شعلہ بیاں سے مصراع بہ مصراع تشریح سننے کا اپنا ہی مزا ہے۔بقول آغا، جی چاہتا ے اس قدر باکمال شاعری پہ منی کو کم از کم ملک الشعرا(عضلاتی)کا فقط خطاب دیا جائے کہ فاخرہ و غیر فاخرہ ہر قسم کی خلعت شاعری کے باب میں اثراتِ بد کی حامل ہے۔

مگر اس بات کے آغا بھی معترف ہیں کہ غنیم نے اس مثنوی سے ہماری شخصی آزادی پہ شب خون مارا ہے۔ ازمنہ قبل از مثنوی منی میں خاکسار فرطِ شفقت میں ہر اس لڑکی کو منی کہہ ڈالتا جو اس خطاب پہ خوش ہونے کے قابل ہوتی، یعنی خود سے پانچ سات برس بڑی خواتین تک کو، آغا یہی لفظ فرطِ رغبت کے پیرائے میں استمعال کرتے۔ تاریخ شاہد کہ عاجز نے صنفِ نازک کو جب بھی کم عمری کا احساس دلایا دامن کو ہمیشہ گوہرِمراد سے پر کرنے میں کامیاب رہا۔ بڑی بڑی زاہدِ خشک قسم کی خواتین اس طرزَتخاطب پہ ٹرانسسسٹر کی طرح دعائیں نشر کرنے لگیں۔بگڑے کام بننے لگے۔ بھابھی بیگم کو جب بھی منی باجی پکارا، دھلی دھلائی استری شدہ قمیضوں کا بندوبست پردہِ غیب سے ہوا۔آغا یہی کام فرطِ رغبت سے کرتے تھے سو ان کے نتائج کا بیان یہان ضروری نہیں۔

تفنن برطرف، ظالموں نے اس خطاب کی ماہئیت یوں بدلی ہے کہ جن بہو بیٹیوں کو تا عمر اطہارِ اپنایت کے لیے منی کہہ کر پکارتے رہے اب ان کے لیے فرداً فرداً نئی عرفیت کے ایجاد کا مسئلہ درپیش ہے۔ ایک اپنائییت سی تھی اس لفظ میں۔ منی! بزرگی کا اظہار۔ ویسے کہو مجال ہے جو بھتیجی بیگم چائے تو کجا پانی کا گھونٹ ہی پلادیں۔ منی یا گڈی کہو، ا لہٰ دین کا جن بھی کیا اس سرعت سے چائے لائے گا۔ اور جن جن کو منی کہا جاتا، انہیں بھی احساس تحفظ ملتا۔ اب تو منی کہتے ہی نگاہوں کے سامنے اس منی کا سراپا لہرانے لگتا ہے جو بدنامی کو نیک نامی سے افضل گردانتی ہے۔ دو ایک بار کسی بہن بیٹی کو منی کہہ بھی دیا تو دیر تک خود سے ہی شرمسار رہا۔ جو گودوں کھیلیں تھیں اب انہیں منی کہتے دل دکھتا ہے ، اک نیک بخت جس کو انگریزی پڑھائی، کچھ ماہ قبل تک منی کہتا رہا اور وہ بھی ازراہِ لطف مجھے انکل پکارتی اگرچہ فرق صرف دو برس کا ہے۔ مگر احترام اور بے تکلفی کے جن جذبات کا اظہار اس لفظ سے ہوتا تھا اسے اب کیسے کریں؟۔ ستم ظریفوں نے ایک پوری تہذیب کو نیلامِ عام کے واسطے رکھ دیا ہے اور کوڑیوں کے بھاؤ بیچ رہے ہیں۔


3 comments: