Monday, February 28, 2011

ہوئے مر کے ہم جو رسوا

کہنے کو تو استاد کہہ گئے اور ہم ایسے پڑھ پڑھ سر دھنا کیے ؎ہوئے مر کے ہم جو رسوا۔۔ مگر خدا لگتی ہے یہ ان معدودے چند دعووں سے ہے جن سے خاکسار سو فیصد غیر متفق ہے۔ ایمان کی کہوں تو اپنے ہاں مردوں سے زیادہ مقام و مرتبہ فقط جرنیلوں اور محبی الطاف حسین کو نصیب ہو سکا۔ اس کے علاوہ سب ہیچ۔ اس دھرتی کا چلن ہے کہ یہاں مردوں کو مردہ بعد میں تسلیم کیا جاتا ہے اور بخشندہ پہلے۔ بینک لوٹتے ہوئے بھی مرو تو معاملہ اللہ کے سپرد کر کے فاتحہ کہہ لی جائے گی۔ صاحبو دو گز زمین اور سات گز لٹھا تو ہر نفس کا بنیادی حق ہے مگر جس طرح دو گز زمین پہ چار گز اونچا گنبد اور اس گنبد تلے چھ گز ریشم پہ ہر شخص کا حق تسلیم کیا گیا ہے، دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ آج بھی اس ملک میں غاصبوں تک بعد از مرگ اللہ کی رحمت پہنچانے والے بہت مل جائیں گے۔ " بھئی مر گیا، اب برائی مت کرو۔ اللہ کی سپرد"۔۔ کاش ہم سوچ سکیں" بھئی یہ ایک زندہ انسان ہے۔ اس کی معمولی خطائیں اللہ کے سپرد"۔




حاصلِ گفتگو یہ کہ اپنے ہاں مر کر چند دن بعد زندہ تو ہو سکتے ہیں مگر مر کر رسوا ہونا بعید از عقل ہے۔ یہ تو استاد نے درفنطنی ہی چھوڑی اور ہم سب الو بن گئے۔ یوں بھی امتدادِ زمانہ اور ہماری ازلی بےحسی کے سبب استاد کو حیاتِ فانی میں جسقدر "نیک نامی" نصیب ہو چکی تھی، اسے دیکھتے ہوئے بعد از مرگ رسوائی کا خطرہ استاد کی اپنی ذہنی اپچ معلوم ہوتا ہے ورنہ گنجی نہائے کیا اور۔۔۔۔۔ علاوہ ازیں یہ مصراع یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ استاد علیہ رحمہ (حقیقی) کے شعر چاہے انکو نازک مزاج۔ حساس اور بلند خیال ثابت کریں مگر کھال فی الحقیقت آپ نے گینڈے کی ہی پائی تھی۔ یعنی تاعمر بلی ماروں کی خاک کو آستاں رکھا مگر دلی کو اپنے تئیں ہمیشہ کالے کوسوں دور سمجھا۔۔



خیر یہ میں عادت کے ہاتھوں مجبور ہو کر استاد پہ ہی چڑھ دوڑا۔ امید ہے کہ شارحین و محبانِ استاد خاکسار کی اس جسارت کو نظر انداز کر دیں گے۔ مقصد صرف اس چرب زبانی کا ایک اہم مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرانا ہے ورنہ استاد کی معمولی سی درفنطنی انکی فنی عظمت اور ان کے ہاتھوں کھدی ہوئی جوئے شعر کو دیکھتے ہوئے لاکھوں بار معاف کی جا سکتی ہے۔ اس سارے ہذیان میں قابلِ توجہ نکتہ یہی سمجھئیے کہ ہمارے ہاں مردوں کو ہمیشہ صدقِ دل سے رحمۃاللہ علیہ مان لیا جاتا ہے۔ آنکھیں بند ہوتے ہی ساری تقصیریں معاف۔ اور زندوں کی ذرا سی خظا پہ تلواریں بےنیام ہو جاتی ہیں۔



ہمارے ہاں فوت شدگان کو جو مرتبہ حاصل ہے آغا کی زبانی اس کا بیان یوں ہے۔ اس مٹی کی تاثیر ہے کہ عاشق تک کو آغوش میں لیتے ہی نویدِ مسرت سنا ڈالتی ہے۔ شاید اسی لیے شاعر لوگ اکثر اس قسم کی اڑاتے پائے جاتے ہیں۔" اپنے ہاتھوں سے اس نے میری قبر پہ"۔ یعنی وصل تک کو موت سے مشروط کر ڈالا۔ لاحول ولاقوۃ۔۔ میاں جی موت کے بعد قبر پہ حسین آئیں یا حبشی، نیت دونوں کی ایک ہی ہو گی۔ دعائے مٖغفرت۔ یوں بھی حسینوں کے نزدیک قبر کے گلے میں بانہیں ڈال اٹھکیلیاں کرنا کچھ اتنا حسین خیال نہیں ہونا چاہئیے۔



برسبیلِ تذکرہ ایک مشہور لطیفہ یاد آ گیا ۔ ایک عفیفہ گیلی قبر کے سرہانے بیٹھی ہاتھ والے پنکھے سے ہوا دے رہی تھی، کسی نے پوچھا بی بی یہ کون ہے؟ جواب آیا "میرا شوہر"۔۔ سوال کنندہ قسمت کی ستم ظریفی اور اس بی بی کی وفا پہ آبدیدہ ہونے ہی والا تھا کہ مزید گویا ہوئیں۔۔ "مرحوم کی وصیت تھی میری مٹی سوکھنے سے قبل دوسرا بیاہ مت رچانا، منحوس کو ساون میں ہی دم دینا تھا، سوکھ کے ہی نہیں دیتی۔"۔۔



خدا اس عفیفہ کا بھلا کرے، کسی نے تو زندوں کو مردوں پہ ترجیح دی۔ ورنہ صاحب یہاں یہ حال ہے کہ ہر سال سینکڑوں مہ جبیبیں بڑی جانفشانی سے رانجھے کے نامہِ اعمال پہ تحقیق کرتی ہیں*۔ اگر صحیح وقت پہ صرف ایک بھی ہمت کر لیتی تو ہزاروں کو یہ محنت نہ کرنی پڑتی اور وارثٖ شاہ صاحب کو بھی مواد ڈھونڈتے دانتوں پسینے آتے۔ میں نے استفسار کیا قبلہ وہ کیسے؟ فرمانے لگے۔ بھئی اگر قرب و جوار میں ہی گھاس میسر آ جاتی تو رانجھے کو باؤلے کتے نے کاٹا تھا جو کوہ قاف کے پچھواڑے جاتا۔۔ عش عش کرنا کرنا پڑا اس جواب پہ۔ ثابت ہوا کہ کارگاہِ عشق میں بھی موت کو حیات پہ فوقیت حاصل ہے۔ تفنن برطرف، عاشق اور شاعر ہمیشہ کفنی میں ہی بھلے لگتے ہیں۔(حسینوں کو استشنیٰ حاصل ہے) زندہ ہوں تو بڑوں کو ان کی پہنچ سے بصد اہتمام دور رکھنا چاہئیے۔ اور ان دو میں شاعر کو سبقت حاصل ہے کہ اس کے ہاتھ وہ داؤ ہے جو اگر صحیح نہ پڑے تو مضروب مجروح ہو جاتا ہے۔( حسبِ سابق یہاں بھی حسینوں کو استشنیٰ مل گیا)۔



آغا کی آغا جانیں یا خدا، کہ خاکسار کی فی الحال خیال کے ان اعلیٰ درجوں تک رسائی نہیں جہاں آغا متمکن ہیں۔ مردوں سے ہونے والے ترجیحی سلوک پہ آغا کے خیالات سے مجھے صد فیصد اتفاق ہے۔ (بجز آغا کے منفرد نظریات کے جہاں ذکرِ جہنم میں بھی حسین مردانہ وار آتے ہی چلے جاتے ہیں۔ مطلب شہیدِ حسن تو ہوں مگر کم نصیبی کہ اس قدر اعلیٰ درجے کا شہید نہ ہو سکا)۔ جسقدر اپنے ہاں مردوں کی قدر و منزلت ہے، اتنی زندوں کی ہو تو یہ دنیا جنت بن جائے۔

No comments:

Post a Comment