Tuesday, March 29, 2011

نامے میرے نام ۱

خط لکھنا شاید وہ واحد عمل ہے جسے بیک وقت ضرورت اور عیاشی قرار دیا جا سکتا ہے۔ دروغ بر گردنِ آغا۔ آئن سٹائن نے نظریہ اضافیت کی جو مشہورِ عام صراحت کی ہے۔ اسی کو اس ضمن میں کافی سمجھو( عاقلاں را توا کافی است۔ اگر نہیں سمجھ سکے تو اس میں آپ کی محدود معلومات کا قصور ہے۔ خاکسار اس حد سے آگے بڑھ کر اس عمر میں چکی کی مشقت نہیں چاہتا)۔۔ خود میرے الفاظ میں اگر سرنامے پہ مہر ٹنڈو اللہ یار/چیچو کی ملیاں(کئی سال تک ہر دو کی بابت عرفان ایقان سے بھی بڑھ کر ہی رہا کہ دونوں اگر ہیں تو کوہقاف اور ٹمبکٹو کے درمیان کہیں ہیں) کی ہو تو اسے ضرورت اور اگر اسلام آباد کی ہو تو اسے عیاشی قرار دیا جا سکتا ہے۔


مزید یہ کہ اتنا تو میں بھی مانتا ہوں کہ خط و کتابت کو ترقی دینی چاہئیے۔ اختلاف وہاں سے شروع ہوتا جہاں مکتوب الیہ کا طہ کرنا ہو۔ مثلاً میں چاہتا ہوں بینک مینیجر کا تہنیتی پیغام مع گلدستہ روزانہ بنیادوں پہ موصول ہو اور بیلف مینیجر کے تمام تر خطوط میرے بدطینت ہمسائے کو ملیں۔ مگر صاحبو کبھی کبھار آنے والے مکتوبات سے ہی نامہ بر کا تعصب جھلکتا ہے۔ سرخ چھپائی والے تمام خطوط ظالم میرے ہی دوارے بھینٹ کرجاتا ہے۔ فالحمدللہ میری تمام خواہشیں پوری نہیں ہوتیں کہ کبھی کبھار جس صورت پوری ہوتی ہیں وہ میری اوقات اور برداشت سے کافی باہر ہے۔ سرِدست یہی مکتوبات والی خواش لیجئیے، اگر یہ اسی عمومی کلیے یعنی سوال گندم جواب چنا کے تحت پوری ہوتی تو اب تک میں تو میں، سارے محلے کے موزے تک قرق ہو چکے ہوتے۔

ان مکتوبات کے علاوہ نصابی مکتوبات میں فقط والدین، رشتے داروں اور دوستوں وغیرہ کے بعد تجارتی لین دین کے خطوط ہی بچتے ہیں جو صد شکر کبھی لکھنے کی نوبت نہیں آئی کہ اولاً ابا کے دستخط میں مہارتِ تامہ حاصل تھی اور ثانیاً جعلی نتائج بنانے میں۔ سو زر کے معاملے میں ہم لوگ کبھی محتاج نہیں رہے۔ اب رہ گئے رشہہ دار تو دادا حضور نے اس خرچے سے ہمیں بچا رکھا تھا۔ نانا کی خواہرِ نسبتی سے نسبت طے کر کے اور پھر سارے کنبے کو ایک ہی شہر میں بسا کر۔۔ خط میں کیا لکھتے۔۔۔" پیارے چچاجان ۔ ان چھٹیوں میں احقر قدم بوسی کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہے کہ آپ کی پرفضا جائے سکونت دیکھ سکے" تو بھائیو چچا کی جائے سکونت بالائی منزل تھی یعنی ففط بیس سیڑھیاں۔۔ کہنے کو تو بیس سیڑھیاں چڑھنے پہ بھی فضا بہت پر فضا لگنے لگتی تھی کہ عم زاد سے نسبت طے تھی مگر یہ بیس سیڑھیاں عموماً چچی ہی اترتیں۔ سو کسے خط لکھتے؟ دکاندار کو کہ مجھے فلاں نمبر کی فلاں چیز چاہئیے؟ تو ابا جی کی دور بیں نگاہوں نے پہلے ہی بندوبست کر رکھا ہوتا۔ رو پیٹ کر فلاں نمبر کی فلاں شے جا کر ہی لانی پڑتی۔ علاوہ ازیں ہمارے جیب خرچ مقرر کرتے ہوئے یہ فرض کر لیا گیا تھا کہ افراطِ زر کی شرح وہی ہے جو قیامَ پاکستان سے قبل تھی۔ غالباً انہی اقدامات کے باعث احقر ابلاغِ و تعلقات میں قریباً کورا ہی رہ گیا۔ وہ تو بھلا ہو دوستوں کا جن کے باعث نصابی خطوط کا " دوست کو خط لکھو" والا حصہ بطریقِ احسن سیکھ گئے۔

عرصہ ہوا جب ابھی آتش میں جوانی کی کچھ رمق باقی تھی اس دور میں ہم چند دوست فقط ذہنی عیاشی کی خاطر بڑے بڑے دلچسپ اور طویل خطوط کا تبادلہ کرتے۔ جن میں درجہ بدرجہ غمِ دنیا سے لے کر غمِ جاناں تک ہر چیز کی مفصل تصویر کشی کی جاتی تھی۔(الحمدللہ سب خطوط امتدادِ زمانہ کا شکار ہو گئے ورنہ کیا عجب اللہ تعالیٰ کسی محقق کو پیدا فرما دیتے اور فریدون کے خطوط قائرین کو دق کرتے) اکثر جوشِ مصوری میں ہم لوگ آدابِ تصویر کشی بھول جاتے سو جب بھی کسی کا خط پکڑا جاتا بہت تفریح رہتی تھی۔ ایکبار یار جانی شاہدِ اکثر المہماتِ شوق کا محبت نامہ پڑھ کر یوں ہی چھوڑ دیا۔ اب حضرت ہمیشہ نئی اپچ نکالنے کے عادی رہے ہیں جس میں ایک خط کے آخر میں۔۔فقط "ش" لکھنے کی عادتِ بد بھی تھی( اسی روز یہ عقدہ کھلا کہ عادت جب عادتِ بد کہلانے لگتی ہے تو اس کے عواقب کس قدر ہولناک اور اندوہناک ہو سکتے ہیں)۔ گو سرسری بیان سے یہ ایک معصوم سی عادت معلوم ہوتی ہے مگر اس میں موصوف کی لکھائی شامل کر لیں جو کہ بالکل زنانہ یعنی چھوٹی چھوٹی گول تھی تو یہی عادت دو نالی بندوق بن جاتی ہے۔ جسے چاہو مقتول قرار دلوا دو۔ اب حضرت فارسی نما اردو لکھنے کے عادی تھے جس کی بناء پہ یہ تو قریباً طے تھا کہ آپ کی باتیں ملازم پیشہ کے ہمیشہ اوپر سے ہی گزرتیں۔۔

سو میں کہہ رہا تھا کہ خط موصول کیا اور ہڑھ کر پلنگ پہ ہی چھوڑ گئے جو بعد میں بی عنایتاں کے ہتھے چڑھ گیا۔ گھر واپس آیا تو خط غائب، سوچا والدہ محترمہ نہ لے گئی ہوں کہ میرا دیرینہ دوست ہونے کے ناطے وہ اماں کو بھی بہت پیارا تھا۔ کھٹکا سا ہوا کہ چاہے ڈھکی چھپی ہی مگر بہت ساری کہہ ڈالی ہے اور اماں ٹھریں فارسی دان تو حجامتِ عامہ ہو گی آج۔ پھر سوچا شاید چچی بچا لیں کہ نسبتِ خاص کے تعلق سے میں انکو کافی پیارا تھا۔ مگر نہیں حضرتِ "ش" نے جو ناگفتنی کہی تھی وہ سن کر کوئی بھی خوشدامن تنگدامن میں بدل سکتی ہے، اور پھر یہ تو وہ خوشدامن ہیں جو ابھی ہونے والی ہیں اور میرے متعلق یہ خیال کہ خاکسار چسنی چھوڑتے ہی مسجد میں گھس بیٹھا تھا۔ ( اللہ انہیں خوش رکھے۔ جانے کیوں ہمیشہ سے میرے بارے میں خوش گمان ہیں)۔۔۔۔

المختصر۔۔ کافی ہولناک خیالات نے اودھم مچا رکھا تھا۔ کبھی سوچتا کہ جہاد کے لیے نام لکھوا دوں۔ مرنا تو ہے ہی، شہادت کی موت کیوں نہ مرا جائے۔ پھر سوچا نہیں اگر نام لکھوا دیا تو ابا جی خود جمع کرا کے آئیں گے اور ایک خط کے بدلے یقینی شہادت سے میں متامل تھا۔ بھئی جذبہ ہی سچا نہیں رہتا۔ کیا علم قبول ہو یا نہ ہو۔ ( ویسے اگر نامہ شریف واقعتاً کسی موصوفہ ش کا ہوتا تو ابا کے ہاتھوں یقینی اور دردناک شہادت کی نسبت کفار کی معصوم سی گولی کھا کر پٹ سے جان آفرین کے سپرد کر دینا کہیں بہتر تھا کہ ابا ربڑ کے پائپوں اور لوہے کی زنجیروں سے دھیرے دھیرے شہید ناز کے مرتبے پہ فائز کرتے)۔ ۔۔۔ شام تک پلنگ پہ سویا بنا رہا۔کئی بار اماں آئیں اور آوازیں دیں مگر بخار کی بے مثال اداکاری وہاں نقصان دے گئی۔ اماں وہیں بیٹھ گئیں اور پڑھ پڑھ پھونکنے لگیں۔ وہ بھلا ہو گھڑیال کا جس نے چار بجائے اور اماں کو ابا کی وجہ سے اٹھنا پڑا۔۔ اس کے بعد بھی صحن سے اماں کی آوازیں آ رہی تھیں کہ بی عنایتاں کمرے میں آ کر صاحبِ عالم کو جگائے اور دوا وغیرہ دے۔۔۔ یہاں ذرا بی عنایتاں کا تعارف ہو جائے۔۔۔

No comments:

Post a Comment