Saturday, April 02, 2011

نامے میرے نام ۲

والدِ محترم اور پاکستان میں مثالی بھائی چارہ پایا جاتا تھا۔ عمر میں دس ماہ بڑے تھے شاید اسی لیے بقول دادا حضور سارا رستہ نومولود کو آڑے ہاتھوں لیا۔ یعنی گلا پھاڑ پھاڑ خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ دادی کہا کرتی تھیں ہمیں دشمنوں سے زیادہ خوف تیرے باپ سے تھا۔ جہاں لوگ دشمن کے قریب ہوتے وہیں یہ ظبلِ جنگ بجا ڈالتے۔ مگر ظاہر ہے اس وقت کوئی بھی رجز پڑھنے کے موڈ میں نہیں رہا ہو گا اسی لیے سبھی عامۃ الناس کے ساتھ تھر تھر کانپتے لاہور پہنچے۔ پاکستان میں ابا کی وجہ سے ملازمہ رکھی گئی جس کا نام بی عنایتاں تھا۔ اور اس کی واحد ذمہ داری ابا کی اماں کے سرہانے بیٹھنا تھا۔ کم عمری کے باعث شاید بی عنایتاں کو باقی کاموں سے شروع میں دور ہی رکھا گیا اور بعد میں دادی حضور کو ان کی عادت ہو گئی۔ مطلب ان سے باتوں کی۔ سو ان گناہگار آنکھوں نے با عنایتاں کو ہمشہ ملازم پیشہ پہ حکمرائی کرتے ہی دیکھا۔ نام تو عنایت بی بی تھا مگر ہم بچہ لوگ مروجہ القاب خالہ/ اماں کبھی نہیں سیکھے۔ سو بی عنایتاں کہتے اور پیٹھ سینکتے پھرتے کہ بڑے ان کی بےحد عزت کرتے تھے۔ وہ بھی چڑنا بھول گئیں




مصراعہ مشہور ہے،، خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے۔۔ بی عنایتاں کی بار خدا نے بوجہ اول الذکر تو ہاتھ روک کر ہی نکالا مگر نزاکت کوٹ کوٹ کر بھر ڈالی۔ اور اس پہ تعلیم واجبی تھی، ان سب خصائص کو ایک زمانہ بھگتا۔ جوان ہوئیں تو بھرا گھر چھوڑ کر دادی کی مشیرِ خاص بن بیٹھیں۔ بہانہ یہ کہ شوہر نکھٹو اور بےقدرا ہے۔ بعد میں اسی شریف انسان کو احقر نے گدھے کی طرح کام کرتے دیکھا ہے۔۔ سو یہ تھیں بی عنایتاں، ابا کی آیا ہونے کی وجہ سے ہم سب پہ حکمران۔ اور سب میں سے خاکسار پہ خصوصی طور پہ کے ابا کا ولی عہد ہونا بھی ایک مصیبت تھا۔



سو اس روز ان نے خط اٹھایا تو میرا کاغذ سمجھتے ہوئے چھوٹی کو بلایا اور صحیح جگہ پہ سنبھالنے کا بولا۔ اور چھوٹی ان معاملات میں ہمیشہ ساٹھی پاٹھی خاتون ثابت ہوئی ہے۔ زنانہ لکھائی دیکھتے ہی جا اپنی بھاوج کو پکڑایا اور شام تک وہ خط تمام لڑکیوں میں اخبار کی طرح بٹ چکا تھا۔ مصیبت یہ ہوئی کہ پردہ دار بی بیاں ہونے کے باعث ش کا نام ہی سن رکھا تھا۔ بعد میں علم ہوا کہ چند ایک نے شاہد بھائی کا اسمِ گرامی پیش بھی کیا مگر یہ نظریہ اکثریتِ رائے سے نامنظور ہو گیا۔ یوں بالا ہی بالا مسماۃ ش کو میرے پلے باندھ کر سب فارغ ہوئیں اور میں خود ساختہ بخار میں پھنکتا اور ممکنہ انجام پہ ہولتا پڑا رہا۔۔۔
خیر شام کو ابا آئے تو اٹھنا پڑا ورنہ اسی وقت ڈاکٹر بلا لیا جاتا جو سراسر غیر صحتمندانہ اقدام تھا کہ نزدیک ترین ڈاکٹڑ مجید ڈسپنسر چار گھر دور بلاتخصیص مرد و زن و بلاتشخیص عوارض حیاتین ب کے جہازی ٹیکے اور کڑوی گولیاں بانٹنے میں ہمہ وقت مصروف تھا۔ مسکین سی شکل بنا کر ابا کو سلام کیا تو بی عنایتاں نے الم غلم سے لبریز پیالہ آگے رکھ دیا۔ ابا نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو بولیں۔" نکے چوہدری نو تاپ آیا اے" ،،لمبی ہوں اور اگلا سوال مجھ سے۔۔۔ کب سے ہے؟ ڈاکٹر کو دکھایا؟۔۔ جی آج شام سے ہلکی سی تھکاوٹ ہے۔ شاید ٹھیک ہو جائے،،، ڈاکٹر کے اپس جا اور دوا لا نواب صاحب، نہ تو اتنا حسین ہے کہ بخار تیرے منہ کا نور نہ چھینے اور نہ میں اتنا فارغ کہ تجھے اٹھا اٹھا گھوموں۔ خالہ عنایت اسے پیسے تھمانا کھانے کے بعد۔ ایسے مواقع پہ بی عنایتاں دنیا کی حسین ترین ہستی لگتی، اگر وہ پاس ہوتی تو ابا عموماً بخش دیا کرتے ورنہ میرے عارضی عوارض ان کے سامنے ناک سے لکیریں نکالنے پہ مجبور تھے۔



مرتے کیا نہ کرتے، پہلے تو بی عنایتاں کا خاص دلیہ کھانا پڑا جو میرے محدود علم کے مطابق پر از امید خواتین کے صدری نسخوں سے ترتیب شدہ تھا اور اس کے بعد ڈاکٹر مجید نے حیاتین ب کا ٹیکہ ٹھونک ڈالا(جانے اس قسم کی خوراک کو قوت بخش مانتے ہوئے لازمہ کیوں سمجھ لیا جاتا تھا۔ اگر اس روز میرا بخار حقیقی ہوتا تو لازماً وہ میری آخری رات تھی۔ اور جن خواتین کے لیے یہ خوراک ترتیب دی گئی تھی۔۔۔۔۔ وہ شاید مسز گاما پہلوان ہونے کا شرف رکھتی تھیں۔ کہ عام خواتین ان حالات میں مقابلتاً ہلکی پھلکی اور زود ہضم غذا سے شغل فرماتی ہیں) ۔ نصیب کو کوستا گھر پہنچا تو چچی جان اماں کے مونڈھے سے لگی بیٹھی تھیں۔ یا اللہ خیر۔ ڈومز ڈے آن پہنچا، حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد ہوں۔۔۔ ڈرتے ڈرتے سلام پیش کیا تو بڑا شاکی اور مایوس سا جواب آیا۔ حق اللہ۔۔ وقتِ شہادت آن پہنچا۔ لو وصل کی ساعت آن آ پہنچی۔۔ پھر حکمِ حضوری پہ ہم نے وغیرہ وغیرہ۔۔ سبھی المیہ اور جاںبحقانہ اشعار یاد آگئے۔ زندگی کے تیز ترین بیس قدموں سے کمرے تک پہنچا اور کتابیں کھول کر بیٹھ گیا۔۔ مگر اس سمے ہر ورق پہ سو سو ش دکھ رہے تھے اور ہر ش کے واسطے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے غلیظ ترین گالیاں برامد ہو رہی تھیں۔ قریباً طے کر چکا تھا کہ اگر بات بڑھی تو جیسے بھی ہو فقط ایک بار گھر سے بھاگ کر ش کو گولی مارنی ہے اور اس کے بعد پھانسی چڑھ جاؤں گا۔ اس گدھے کی نسل سے تو دنیا کو امان ملے۔ بزدلی اور بہادری بیک وقت گھیر رہی تھیں۔ کبھی خیال آتا کہ ابا اور اماں دونوں ہی ش سے اچھی طرح واقف ہیں۔ کچھ نہیں ہو گا، دوسرا خیال تجربات پہ مبنی تھا کہ ابا حضور ایسے مواقع پہ سوچتے بھی دستِ اقدس سے ہیں۔ سو جب تک ش کی لکھائی پہچانی جائے گی، تب تک میں خود لکھنے سے معذور ہو چکا ہوں گا۔

No comments:

Post a Comment