Tuesday, June 07, 2011

افکارِ دگر

خیالاتِ پریشاں

گارشیا مارکیز سے میرا پہلا باقاعدہ تعارف ایک کالم کے ذریعے ہوا۔ یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ بحیثیتِ اوسط قاری میرا مطمع ہمیشہ سے کتب سے ڈیکوریشن کا کام لینا یا کبھی کبھار کسی پھڑکتی ہوئی لائن کی تلاش ہی رہا ہے۔ اور ناول کی طوالت کا ساتھ دینے کا سوال ہی خارج از امکان ہے۔ عالمی ادب کے مسلسل غیر حاضر طالب علم کی حیثیت سے لاطینی اور روسی ادب نے متاثر کیا، یہ الگ بات ہے کہ لاطینی کے معانی سے بھی لاعلم ہوں۔ خیر چلتا ہے یہ سب۔ اگر سبھی لوگ پڑھے لکھے ہوں تو ان بڑے بڑے ناولوں کو کردار کہاں سے ملیں۔ اپنے اکثر ماہناموں کا تو چولہا ٹھنڈا ہو جائے جن کی روزی ناخواندگی پہ منحصر ہے۔ لکھنےپڑھنے والے طبقات فکری طور پہ مونٹیسوری میں ہی سکول سے بھاگ لیے تھے۔ اس کے بعد سے مسلسل نجی طور پہ لکھ اور پڑھ رہے ہیں۔ خاکسار نے اپنی گنہگار آنکھوں سے عاقل بالغ لوگوں کو ایسے ادب پاروں میں فلسفہ نما اشیاءکی موجودگی کی شہادت دیتے دیکھا ہے جن میں فلسفہ تو کجا پلاٹ کی موجودگی بھی غیر یقینی لگی۔ انتہائی غیر منطقی سی منطق ہے کہ آفریدی قبائل اسلحہ سے غیر متعلقہ کوئی فلسفہ تراش سکتے ہیں۔ یوں تو اپنے ان ہر دم تیار غیور جوانوں میں کسی بھی قسم کا فلسفلہ ملنا نیلے چاند کی امیدِ سعید ہوا کرتی ہے پھر بھی کچھ دیر کو فرض کر لیتے ہیں اس قوم نے بندوق کے علاوہ کسی اور شے پہ غور کیا جس کی بڑی بوڑھیاں بھی پیش قبض سے مصالحہ زیر و زبر اور تہہ و بالا کرتی ہیں۔ سوچئیے اور محظوظ ہوئیے کہ آفریدی قبائل پہ فلسفہ کے پرچار کا نازیبا الزام لگا۔ واللہ میرے جذبات ان بھائیوں کے بارے میں انتہائی نیک ہیں اور یہ ہمارا بازوئے شمشیر زن ہیں مگر قبلہ آفریدی خون سے فلسفہ کا مطالبہ یونہی ہے جیسے شاہد
خان آفریدی سے توقع کی جائے کہ ٹیسٹ شاٹس کھیلے۔

بات کسی اور جانب نکل گئی۔ ذکر چل رہا تھا مارکیز اور لاطینی ادب کا۔ میں کہہ رہا تھا تھا کہ کسی حد تک لاطینی ادب نے بہت متاثر کیا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کے شخصی مسائل بھی قریباً ہمارے جیسے ہی ہیں، زندگی، روزگار۔ توقعات، اعمال اور ذہنیت۔ سو انہی مسائل کی کہانی کسی ایسی زبان سے سننے کا مزا ہی اور ہے جن کی حدود ہم سے مختلف ہوں۔ اور مارکیز انہی زبانوں سے ایک زبان ہے۔ اس کے ہاں مسلسل محنت اور بھوک نے جو ہلکا سا رنگ پیدا کیا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ بنیادی طور پہ مجھے مارکیز ورگاز کی نسبت زیادہ پسند آیا۔ ون ہنڈرڈ ایئر آف سالیٹیوڈ۔ کرانیکلز آف ڈیتھ فارٹولڈ اور لوو ان دا ٹائم آف کالرا لاطینی ادب کی نشاطِ اولیٰ کے نمایاں ترین ناولوں سے ایک ہیں۔ اول الذکر تو شاید دنیا کے بہترین ناولوں سے ہے اور سینتیس برس میں سینتیس زبانوں میں شائع ہو چکا ہے۔ مجھے کسی حد تک لاطینی اور روسی ادب انفرادی نفسیات کی ہمارے ساتھ مماثلت کے باعث بھی بہت پر کشش لگتا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کے عین پڑوس میں بیٹھے کسی محروم یا قانع کا نفسیاتی تجزیہ دلچسپی سے خالی نہیں ہو سکتا۔ اور پھر اندلس کا ماضی کسی نا کسی شکل میں ہسپانوی یا ہسپانوی نما بولی بولنے والوں میں دکھتا ہے۔ کھنڈرات۔ بجھی ہوئی تمنائیں۔ شاید نعمت کی ایک عرصے تک بغیر شکر و تزکیہ کے فراوانی روح کو بے ڈھب کر ڈالتی ہے۔ احساسات مستقل سن ہو جاتے ہیں۔ قوم کی بجائے تمدن کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ بس پھر اس کے بعد اس تمدن کی مختلف جھلکیاں اس خطے سے کسی نا کسی شکل میں منسلک رہنے والے۔لوگوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیے۔ سینہ گزٹ والے کہتے ہیں کہ کوٹ اندلس کے کسی افراسیاب نامی ڈیزائنر نے پہلی بار خلعت یا غالباً شاہی لباس کے طور پہ سیا تھا۔ سقوطِ اندلس کے بعد بھی اندلس کا تمدن کہاں کہاں نوحے نہیں کہتا۔ لاطینی امریکہ کی موسیقی سن لیں۔ کہیں کہیں بیٹ اور نوٹ عرب سازوں کی بازگشت لگیں گے۔ یہ بود وباش سپین سے ہوتی ہوئی امریکہ آئی اور یہیں بس گئی، لاطینی امریکہ میں اگر غیر ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیں تو آج بھی ادائیں تیرِ نیم کش کی یاد دلاتی ہیں۔(اگر مفتوح بزرگوں، پرپیچ ذہنوں اور تیسرے درجے کی مغربی فلموں کے تشکیل کردہ حلقہِ بیسوا سے باہر کی ہسپانوی خواتین کا مشاہدہ کر سکیں تو شاید آپ بھی مجھ سے اتفاق کریں) سپین تو چلو گھر ٹھہرا اس تہذیب کا مگر لاطینی امریکہ والوں نے کہیں کہیں جس طرح اسے سینچ سینچ رکھا ہے، تعجب ہوتا ہے کہ لہو مٹی کی تاثیر کس قدر بڑھا ڈالتا ہے۔ جس مٹی پہ لہو گرے وہاں اس لہو سے تہذیب کا پودا اگ آتا ہے۔ فاتح اپنی برتر تہذیب کے باوجود کہیں کہیں مفتوح کی طرح جینے لگتا ہے اور اگر فاتح کے ہاں مکمل تہذیب غیر موجود ہو تو(مثلاً منگول) جیت مفتوح تہذیب کی ہی ہوتی ہے۔ کسے معلوم تھا کہ خاکِ نیل کے بعد بھی کوئی مٹی اسقدر زرخیز نکل سکتی ہے۔ خدا اپنے دشمنوں اور دوستوں دونوں کی نشانیاں بالترتیب ذلت اور عزت کی خاطر زندہ رکھتا ہے۔

لاطینی امریکہ معاشی اور معاشرتی لحاظ سے امریکہ کے پڑوس میں واقع جھونپڑ پٹی ہے۔ اور اگر اس خطے میں صاحب بہادر کے پڑوسیوں سے شروع ہوں تو کئی ممالک ایسے بھی مل سکتے ہیں جو بلحاظِ عادات کسی حد تک ہمارے بھائی کہلائے جا سکتے ہیں۔ میکسیکو ہی سے شروع کیجئیے۔ کیا نہیں ہے انکے ہاں جو ہمارے پاس ہے۔ روزانہ گرتی لاشیں، ڈرگ لارڈز۔ جنتِ ارضی( انسان کی تعمیر شدہ) سے اٹھنے والی مسحور کن مہک، من حیث القوم ہر نئے سورج کے ساتھ ملک میں موجود برائی کے سرچشموں پہ شب خون مارنے کا پختہ عہد اور دن ڈوبتے ہی وہی طاقِ نسیاں پہ جو اب بڑھتے بڑھتے گوشہِ نسیاں بن چکا ہے اس وعدے وعید کی آخری آرامگاہ۔ اپنے سوا ہر ایک سے نفرت۔ سب جہنمی سوائے میرے اور میرے متعلقین کے۔ ہاں ایک چیز جو ہماے ہاں ہے ان کو نہیں مل سکی۔ علوم کے بارے میں اعلیٰ ترین درجے کا عدم شعور اور بچلی و پانی کی نایابی۔ خیر کچھ تو کاتبِ تقدیر کے سر منڈھنے کو بھی ہونا چاہئیے ورنہ ناصح کا ساو ¿نڈ باکس مسلسل استعمال سے ناکارہ ہو جائے۔ ہاں ناصح اکثر و بیشتر ان کے اور ہمارے ایک سے ہیں، یعنی میاں فصیحت الملک و زبان دراز خان۔ ٹھنڈی گاڑی میں دھرنا دینے والے۔ سیاست دان بھی قریباً ہمارے جیسے ہیں۔ بس ذرا قومی غیرت کی تھوڑی سی مقدار ابھی باقی ہے مگر اس پہ ہمارے بھائیوں کو جی چھوٹا کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ان شاءا اللہ ایک روز ہمارے برابر کھڑے ہوں گے۔ بس دس ایک سال کی محنتِ شاقہ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ عبقریت اور زرخیز مٹی کا کلیشے ان میں بھی موجود ہے۔ بس ذرا سی نم کی ضرورت ہے اور اس کے بعد رہے نام اللہ کا۔ بس خطرہ یہی ہے ک کہیں یہ لوگ چین اور کوریا کی طرح پورے قبیلے کی ناک نہ کٹوا ڈالیں۔

دیکھا جائے تو خوشحال یورپی اقوام کا شمالی امریکہ تک محدود ہو جانا ہی جنوب کی ازلی بدقسمتی پہ مہر ثبت کرنے کو کافی و شافی تھا۔ پھر نہ صرف برِ اعظم امریکہ بلکہ دنیا بھر سے زرخیز دماغ جب شمال میں اکٹھے ہوئے تو چراغ تلے اندھیرا والا معاملہ ہو گیا۔ پڑوس میں بھرے پیٹ دانش کے دریا بہا رہے ہیں جبکہ اپنے ہاں روکھی سوکھی بھی شاذ ہی ملتی ہے۔ ہسپانوی لوگوں پہ وا ہونے والا در اب متشدد اور غالب سفید اقوام کے پاس جا چکا تھا۔ اور ہر غالب قوم کی طرح انکو بھی اپنا وجود برقرار رکھنے کا حق حاصل تھا جو طاقتور کے پاس ہونے کی صورت میں مزید غلبہ حاصل کرنے کا خواب ہوا کرتا ہے۔ ایسے میں ہسپانوی فاتحین کے لیے شاید یہی محفوظ رسہ ہو کہ ایک کونے میں سمٹ کر بیٹھ رہیں اور اپن مستعار تہذیب کے نقوش چھوڑتے رہیں۔ تاوقتیکہ نیا فاتح مرکزی قلعوں سے نمٹ کر ادھر آئے اور اسے عوام سے ہمیشگی کی شکست دی جا سکے۔ یہاں تہذیب پھر سے مہاجر ہو گئی جس کے مقدر میں اب دو نوحے ہیں، اندلس پہ سسکیاں بھرنا اور قدیم امریکی تہذیب کی یادگاروں پہ بین۔ تہذیبیں ایسے مواقع پہ پختہ عمر کی بے اولاد بیویوں والا کردار ادا کرتی ہیں۔ سوکن کو رستہ دو اور پھر اس طرح رہو کہ جس کے بھی اولاد ہو وہ کسی ایک کی کبھی نہ ہو سکے۔ یہی آج کل لاطینی امریکہ میں ہو رہا ہے۔ صاحب بہادر کی تہذیب کو جس طرح اپنے اندر سمویا ہے وہ قابلِ دید ہے۔ اولاد چاہے ناجائز بھی ہے مگر فی الحال اس کی رضاعت کا ذمہ دار نہیں طے ہو سکا۔ ایسے میں مسائل ہمیشہ اجتماعی نوعیت کے ہوتے ہیں اور قوموں کی نفسیات متعین ہوا کرتی ہے۔ غنیم کو روکنا تو عین ممکن ہے مگر اپنی نفسیات سے شکست نکالنا قریباً ناممکن۔ یہی وہ نکتہ ہے جو مجھے ہم میں اور ان میں زیادہ مشترک لگا۔ شاید ہم یہاں کس قدر آگے ہیں ان سے کہ من حیث القوم ہم خود سے شکست کھا چکے ہیں

3 comments:

  1. درست تصوير کشی کی ہے
    از راہِ کرم مندرجہ ذيل آپشن فعال کر ديجئے
    Name/URL

    http://www.theajmals.com

    ReplyDelete
  2. BHUT ACCHI TAHREER HAI

    SHUKRIYA

    .. BHAI... YE name/url option KAISE FA-AAL KRTE HAIN, MUJHE BHI BATA DENA.

    SHUKRAN

    NOOR
    hodekarnoor@gmail.com

    ReplyDelete
  3. خوش آمدید اور حوصلہ افزائی کا شکریہ۔۔

    میں سوال نہیں سمجھ سکا یوآرایل کے بارے میں۔ بہرحال جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔

    بلاگ سیٹینگ میں جا کر کمنٹس کی آپشن چیک کریں۔ اور کون کمنٹ کر سکتا ہے میں اینی ون کلک کر کے دیکھیے۔ لگتا ہے اب لکھ سکتے ہیں یو آر ایل۔

    والسلام
    فریدون

    ReplyDelete