Thursday, June 23, 2011

مسلسل رائیگانی کا سفر ہے

مسلسل رائیگانی کا سفر ہے۔۔

سینتالیس میں ہم آزاد ہوئے اور اڑتالیس میں غلام۔ 
گورے گئے تو کالے آ گئے۔
کالے گئے تو کالے بوٹ۔
گورا صاحب ہمیں کالا صاحب کی گود میں ڈال گیا اور کالا صاحب نے کالے بوٹوں کو بیچ ڈالا۔ 

مجھے ایک فرمائش موصول ہوئی کہ ہمارے ہیروز پہ لکھیں۔ 
کن ہیروز پہ لکھوں؟
وہ ہیروز جو ہمیں بیساکھیاں تھما گئے؟
وہ ہیروز جو ملاؤں کے نام پہ قومی اداروں کے جوان مرواتے رہے؟
وہ ہیروز جن کے نزدیک ایک بم ایک روٹی سے افضل ہے؟
وہ ہیروز جن کا خیال ہے کہ قوم اسلحہ چاٹ کر پیٹ بھرے گی؟
وہ ہیروز جن نے پانی بیچ ڈالا؟
یا وہ ہیروز جو ساٹھ سال سے ان ہیروز کو ہیروز بنائے بیٹھے ہیں؟
یا وہ ہیروز جو ہمیں نفرت اور نفسانفسی کا سبق پڑھاتے ہیں؟
دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ہم حسد کو جزو ایمانی بنا چکے ہیں اور اس پہ خوش ہیں۔۔۔
کوئی اخبار اٹھا لیں۔۔۔ دشمن کے پٹاخے پھسپھسے اور گیلے ہیں۔۔ یہ کہیں نہیں لکھا کہ دشمن کے ہاں  روٹی کی قیمت بہت نیچے آ رہی ہے۔ دشمن نے بے تحاشہ بڑھتی ہوئی آبادی کے حساب سے ایگریکلچر ٹیکنالوجی پہ کام کر رکھا ہے۔۔دشمن کے ہاں طبی سہولیات اعلیٰ معیار کی ہیں

مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ جس مہارت کا دعویٰ ہم اسلحہ سازی میں کرتے ہیں وہ سول ٹیکنالوجی میں کیوں استعمال نہیں ہو سکتی۔ اگر شہری ہی نہ بچے تو ان بموں کو بنانے کے لیے ٹیکس کون بھرے گا؟۔ ایٹم بم بنانے والی قوم پانی کی بوند بوند کو کیوں ترس رہی ہے۔ دنیا ڈیم بناتی ہے اور ہم بنے ہوؤں کے 
درپے ہیں۔۔ ہم ابھی تک اس بات پہ ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ پاکستان اللہ میاں کا انعام ہے۔ ہم سب صرف نفرت کرنا جانتے ہیں حسد کرنا۔ قرونِ اولیٰ کے یورپیئنز کی طرح۔ مسلمانوں سے پہلے کے ہندسوتانیوں کی طرح، تنگ نظر۔ ہم نے تحقیق کو حرام قرار دے ڈالا ہے۔۔ جو پھل ہم آج کاٹ رہے ہیں یہ ہم نے بڑی محنت سے نسلوں پہلے بویا تھا۔ اب صرف ڈھلوان کا سفر ہے۔ کیونکہ ہمیں اپنے آپ سے نفرت ہے۔ ہم جامد قوم ہیں۔ ہمارا فلسفہ حیات مختلف کلیشے ہیں۔ ذہین قوم۔ اعلیٰ ترین افرادی قوت۔ کبھی باہر نکل کر دیکھیں ہم سب بونے ہیں، ٹیلنٹ، ہیروز، جیوگرافک ہاٹ سپاٹ نامی امراض کو کافی افاقہ ہو گیا۔۔ ابھی بھی اگر ہم سوچ بیدار نہ کر سکے تو پاکستان کسی سٹوڈیو میں بھی باقی نہیں بچے گا۔ وی آر ماسٹرز آف سیلف ڈسٹرکشن 

13 comments:

  1. بہت ہی اچھے انداز میں حقیقت کی رجمانی کی ہے آپ نے اور واقعی ہی میں
    وی آر ماسٹرز آف سیلف ڈسٹرکشن

    ReplyDelete
  2. محترم!۔

    رائیگانی تو تب ہوتی اگر کچھ حاصل کر رکھا ہوتا۔ یا کچھ پاس ہوتا۔؟۔

    یاں تو یار لوگوں نے وہ بھی بیچ کر کھا رکھا ہے جس کا ابھی وجود ہی نہیں۔ اور پتہ نہیں ہماری کتنی آئیندہ نسلیں اسے قطرہ قطرہ خون دے کر اتاریں گی۔

    ReplyDelete
  3. آپ نے حالِ قوم [اگر قوم ہے تو] مُختصر مگر درست لکھا ہے ۔ بلا شُبہ حسد وہ زہر ہے جسے ہمارے ہموطن ترياق سمجھ کر پيتے چلے جا رہے ہيں ۔ اگر ہو سکے تو اس رويّئے کی وجوہات پر بھی قلم اُٹھايئے گا ۔ تاريخ کی ايک چھوٹی سی تصحیيح کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔ وسط اگست 1947ء میں ہم آزاد ہوئے اور اواخر اکتوبر 1951ء میں جب بيوروکريسی نے خواجہ ناظم الدين کو گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزير اعظم بننے پر راضی کيا اور بيورو کريسی گورنر جنرل غلام محمد [مرزائی] کی سربراہی ميں پاکستان کی قسمت سے کھيلنے لگ پڑی

    ReplyDelete
  4. یاسر بھائی مجھ جیسے دہائیوں سے رو رہے ہیں مگر ہم لوگ خوش فہمیوں کے اسیر ہیں۔۔ انقلاب کا انتظار کر رہے ہیں انقلاب کی بنیاد رکھے بغیر۔۔ تشریف آوری اور پسندیدگی کا شکریہ

    ReplyDelete
  5. متفق جاوید صاحب شروع سے ہی خواب تک بیچ ڈالے ہمارے۔۔ ہمر میرا رونا تو اس رائیگانی پہ ہے جو دہائیوں سے جاری ہے۔۔ سٹارٹنگ پوائنٹ سے الٹی طرف دوڑ کر سمجھ رے ہیں کہ ریس جیت لیں گے۔۔
    تشریف آوری کا شکریہ

    ReplyDelete
  6. افتخار بھائی یہ ایک طویل کالم بلکہ کالموں کا متقاضی تھا۔ مگر ایک دوست نے فرمائش کی دو بار لکھنے کی،، تو جلدی میں ہیروز پہ چند لائینیں گھسیٹ دیں۔۔ ورنہ میرا اپنا موڈ بلاگ سیٹ کر کے اگلے ہفتے سے لکھنے کا موڈ تھا۔۔۔

    آپ کی بات صحیح۔۔ مگر میرا اشارہ آزادی کے فوراً بعد قائد اعظم کی وفات کے ساتھ ہی لوٹ مچنے پہ تھا۔ خواجہ صاحب کے اترنے پہ تو وہ اندھیر مچی کہ اللہ کا نام۔۔۔ ملک غلام محمد سے چلنے والی روایت ابھی تک جاری و ساری ہے۔۔

    تشریف آوری کا شکریہ

    ReplyDelete
  7. السلام علیکم

    بہتتت درست لکھا ہے فریدون بھائی۔۔ میں واقعی غلط سوچتی تھی۔۔ آپ کے اس بلاگ نے میری سوچ بالکل تبدیل کر دی۔ اور ایک ایک لائن بالکل درست ہے۔۔
    اور مجھے دکھ بھی ہو رہا ہے اس حالت پر۔۔ میرا پیارا پاکستان۔۔

    ویسے یہ آپ نے اتنا آسان آسان کیسے لکھ لیا ;p
    پر بہتت اچھا ہے۔۔ میرے لیے تو بہت فائدہ مند بھی۔۔

    کیپ رائٹنگ۔
    جزاک اللہ۔

    انڈی بانو ;p

    ReplyDelete
  8. وعلیکم السلام انڈی پتر

    واہ واہ، یعنی میں تو ہو گیا دامت برکاتہم و حضرت مدظلہ وغیرہ، سبحان اللہ بھئی سبحان اللہ۔ بھئی اپنےتو کلیدی تختے سے بھی کرامات کا ظہور ہونے لگا۔ ایسی دریافت ہو گئی جس کے باب میں ابھی تک محقیقین و اطباء اور ندما و حکمائے عرب و عجم مشکوک تھے۔ انڈی پتر کی سوچ،،،،یعنی جزینی حیاتیات و کمیاتی طبعیات ؤغیرہ وغیرہ میں انقلاب بپا ہوا ہی چاہتا ہے۔ ;p

    تفنن برطرف، فدوی کی دہقانی کو احباب جس سمے اردو قرار دیتے ہیں تو گردشِ ایام کو چاروں سمت دوڑانے کا جی چاہتا ہے۔ محبین خواہ طنز ہی فرماویں مگر خاکسار کا سیروں خون بڑھتا ہے۔ خدائے لم یزل آپ سب کو میرے علاوہ سبھی آفات و بلیات سے محفوظ و مامون رکھے، آمین ثم آمین۔۔۔

    تصحیح فرما لیجئیے۔۔۔ ہمارا پیارا پاکستان۔

    ReplyDelete
  9. ہائے اللہ فریدون بھائی۔۔ آپ بہتت ہنساتے ہیں۔۔۔ میری سوچ بھی دریافت ہو ہی گئی۔۔ میں نے تو آپ کا یہ مضمون اپنی اتنی ڈھیر ساری سہیلیوں کو بھی پڑھاہا اور وہ سب آپ کے لکھے ہوئے سے بہت متاثر ہوئیں کہ واقعی آپ نے بہتت ٹھیک بات کہی ہے۔۔ اوپر اپنی تحریر میں بھی اور نیچے مجھے ریپلائے کرتے ہوئے بھی کہ۔۔ میری سوچ بھی ہے۔۔ ہاہاہا

    یہ مجھے آپ کے اس ریپلائے کے دوسرے پیرا گراف کی پہلی دو لائنیں ٹھیک سے سمجھ نہیں آئیں ، ذرا آسان زبان میں بتائیں پلیزز۔۔ لیکن آپ کا سیروں خون بڑھتا ہے یہ بہتت اچھی بات ہے،۔۔ گڈ گڈ۔۔

    اور آپ کے علاوہ کیوں۔۔ آپ کو بھی تمام آفات و بلیات سے محفوظ و مامون رکھے۔۔آمین ثم آمین۔۔

    اور واقعی بہت غلط لکھ دیا میں۔۔ بالکل جی ہمارا پیارا پاکستان۔۔
    کر لی تصحیح۔۔

    ReplyDelete
  10. درست فرمایا سیلف ڈسٹریکشن پالیسی دیکھ کر کبھی کبھی "بابو گوپی ناتھ " اور ان کی عورت زینت کا خیال آجاتا ہے۔ لیکن سوچ کی بیداری میں ملحوظ رہے اگر "عوام" نے گراں خوابی سے جاگنے پر منظم، مضبوط اور محنتی ہونے سے پہلے آخری پشتہ گرانے کی کوشش جاری رکھی تو اس مرتبہ 'دشمن' سرکار سے خطابات اور وظائف کا چونا بھی جاری نہیں ہونے والا۔ گولی یا بم چاٹنا آپشنل دکھتا ہے، خاک چاٹنا کمپلسری ہوگا۔

    ReplyDelete
  11. ہک ہا انڈی پتر۔ میں تو خوش تھا کہ تمہاری سوچ دریافت ہو گئی۔ اور تم ہنس رہی ہو۔

    بھئی مختصراً انکساری کا اظہار کیا ہے ان سطور میں

    خوش رہو

    ReplyDelete
  12. ہا ہا ہا ہا۔ نطائف تو مت سنا اے نقاب پوش حسین

    کیسے عوام؟

    وہ عوام جن کا عقیدہ ہے کہ دنیا سرکس ہے ہے اور وہ اس کے واحد تماشائی۔ اور باقی مخلوق کا کام ان کے لیے تماشہ کرنا ہے

    یا پھر وہ عوام جو جبینوں پہ ھذا من فضلِ ربی لکھ کر فرعونی کیمپوں میں من و سلویٰ کا انتظار فرما رہے ہیں۔۔۔

    یا پھر وہ عوام جن کی ناک کی لمبائی ہی دنیا کی حد ہے۔۔
    یا وہ عوام جو مخلوق سے نفرت کو خالق کی محبت کا آخری درجہ سمجھتے ہیں۔۔۔

    یا وہ عوام جن کا ذرہ ذرہ خود کے خواص ہونے پہ ایمان لا چکا ہے

    یا وہ عوام جن کے نزدیک خیانت کی توجیہات دی جا سکتی ہیں۔۔

    یا وہ عوام جو مفسدین اور فاجرین کا ساتھ دینے کی توجیح " محبت سب کے لیے" دیتے ہیں۔۔۔۔

    المختصر! ابھی تو اس ملک میں عوام کی تخلیق باقی ہے۔ آخری دیوار تو بعد میں آتی ہے۔

    باقی آپ کی باتوں سے متفق۔۔۔صرف یہ کہ اس بار جو لگایا جائے گا اسے پنجاب کی عوامی زبان میں پانجا کہتے ہیں

    ReplyDelete
  13. اس تبسم رائگاں سے بچاؤ کے لیے عوام کو واوین میں لکھا تھا۔ ورنہ آپ ہم سب جانتے ہیں یہاں "خواص" کی بات ہو رہی ہے۔ اور خواصوں کے ہاں خاندان غلاماں کی توقع تو کی جاسکتی ہے، تخلیق عوام کا معجزہ ممکن نہیں۔ ویسے بھی عمرانی توجیحات کے مطابق جمہور عوام کو کسی مشترکہ مفاد کی خاطر اکھٹا ہونے والا گروہ سمجھا جاتا ہے۔ کالے بوٹ سے زیادہ یہاں کالا سر قصور وار نظر آ رہا ہے کہ قومی تہواروں پر بھی اتفاق رائے نہ کر پانے والا ہجوم کراچی سے خیبر تک ایک ہی گانے پر جھوم رہا ہے۔ اور ہر چار سال کے بعد مہینہ بھر کو پیپسی ورلڈ کپ کو مل کر دیکھتا ہے۔

    دوسری طرف ہیرو پروڈکشن والوں نے گراس روٹ پر ویڈ پروٹیکشن سے فینس بریکنگ پر ایسی فنکاری سے فوکس تبدیل کیا ہے کہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔

    باقی باتوں سے اتفاق کا شکریہ۔ ویسے پانجا کو پاکستان کی قومی زبان میں کیا کہتے ہیں۔

    ReplyDelete