سینتالیس ( کیا کیجئیے کہ 47 لکھنے پہ کلیدی تختہ رجائیت کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے) کی بہار آتے آتے چیئرمین ماؤ کی سوچ تبدیل ہو چکی تھی۔ عمرعزیز کی پانچ دہائیاں انہیں یہ سبق اچھی طرح پڑھا گئیں تھیں کہ چین کی ترقی ایک مکمل انقلاب اور لانگ مارچ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مگر گراں خواب اور کم نصیب چینی اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ انکے درمیان کس قدر پڑھا لکھا بلکہ چین کا سب سے پڑھا لکھا آدمی جس کو خدا نے ٹنوں کے حساب سے عزت سے نوازا تھا فقط ان کے لیے خجل ہو رہا تھا۔ جس نے اپنی شادی شدہ زندگی صرف چین کے لیے تباہ کر دی۔ جو چیانگ کائی شیک کی جانب سے عطا کیے گئے اعلیٰ ترین اعزازات واپس لوٹانے کو ہمہ وقت تیار رہتا۔ ماؤ سے پہلے چین کو دنیا آرمینیا کا کوئی قصبہ گردانتی تھی۔ یہ ماؤ ہی تھے جن کی ولولہ انگیز قیادت میں چین نے گھڑ سواری کا عالمی مقابلہ جیتا اور دنیا چین سے روشناس ہوئی۔ غرض پورے چین میں بلکہ پوری دنیا میں خدا نے کوئی ایسا چینی پیدا نہیں کیا جو ماؤ سے زیادہ تعلیم یافتہ اور عزت دار ہو۔ ایسے اعلیٰ دماغ میں جب انقلاب اور لانگ مارچ جیسے خیالات سمانے لگے تو آپ اندازہ نہیں کر سکتے ماؤ نے انقلاب کے کیسے کیسے منصوبے بنائے ہوں گے۔ ہر شب ماؤ انقلابی دستوں کے ساتھ نصف شب تک چیانگ کائی شیک کے محل کا محاصرہ کیے رہتے اسکے بعد گھمسان کی جنگ ہوتی اور تحجد سے ذرا قبل جب ماؤ اپنے خنجر سے چیانگ کائی شیک کا گلا اور چین کے طول و عرض پہ امڈے ظلمت کے بادل کاٹنے لگتے تو کوئی چینی ملا انہیں جگا دیتا۔۔ غرض ہر شب یہ شمع سحر ہونے تک ہزار رنگ میں جلتی اور سحر کے بعد ماؤ انقلاب کے جھمیلوں میں پڑ کر بھول بھال جاتے کہ گذشتہ شب سمر پیلس کا کونسا دروازہ گرایا گیا تھا سو اگلی شب نئے سے محاصرہوتا اور کسی نئے دروازے کو گرایا جاتا۔ یہ ماؤ کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جسکے تحت ماؤ قصداً پچھلی رات والا دروازہ بھول جاتے یوں ہر شب نیا دروازہ آزمایا جاتا۔ ماؤ کے خیال میں حکومت روز روز کے رولے سے تنگ آ کر دروازوں کی مرمت پہ توجہ کم کر دیتی کہ اسے کرپشن بھی کرنا تھی۔ یوں بھی ناز و نعم میں پلا بچارہ چیانگ کائی شیک عالمِ خواب میں انقلابیوں سے ہاتھ پیر بندھوا بندھوا کر اس قدر عاجز آ جائے کہ تخت چھوڑکر چلتا بنے۔ اور ماؤ کی افواجِ قاہرہ دن کی روشنی میں بغیر ایک قطرہ خون بہائے چین فتح کر لیں ۔جیسا کہ ہر عالی دماغ فوراً سمجھ جائے گا یہ ایک عظیم منصوبہ تھا جس کے تاروپور صرف ماؤ جیسا طباع ہی بن سکتا تھا اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو سوائے ماؤ کے کوئی نہیں جانتا تھا۔ انقلابیوں کی تربیت کرنا تھی۔ انکو جدید دنیا کے آدابِ معاشرت سے روشناس کرانا تھا۔ موسیقی جیسی لطیف شے پہ مسرور ردِ عمل ظاہر کرنے کی تربیت بہم پہنچانا تھی۔ سمجھئیے چھ ماہ تو انقلابیوں کو منظم کرنے اور مناسب تربیت فراہم کرنے میں صرف ہو گئے۔ اول اول چینیوں کو جتھے بنا کر اپنا حق چھیننا سکھایا گیا گیا۔ لاکھوں لوگوں کو اس کے بعد انقلابی فوجوں کی تربیت گاہ میں سخت ترین تربیت فراہم کی گئی۔ جہاں انکو چیانگ کائی شیک کی فوجوں سے آمنا سامنا ہونے پہ ننگی گالیاں بکنا سکھایاجاتا۔ ماؤ کی محبت انکے ایمان کا جزو بنا دی گئی۔ اگر کوئی ماؤ کے کسی قول کے جواب میں کنفیوشس تک کا نام لینے کی جسارت کرتا تو انقلابی اسے ایسے جانور کی نسل میں شامل کر دیتے جسے مسلمان بھیڑوں وغیرہ کی رکھوالی کے لیے تو پال سکتے ہیں مگر فرشتہِ رحمت کی نازک مزاجی کے باعث گھروں میں اسکا داخلہ ممنوع ہے۔
ماؤ کے انقلاب کے خدوخال/ خال و خد:۔
ماؤ نئے چین کو سب کا ملک بنانا چاہتے تھے۔ اسی سوچ کے تحت جہاں ہزاروں مزدوروں کو اپنی شخصیت کے سحر میں جکڑا وہیں سینکڑوں سرمایہ داروں کو بھی انکے خاندانوں اور دولت سمیت اپنی جماعت کی پہلی صفوں میں جگہ فراہم کرنا پڑی۔ ماؤ کبھی کبھار انکا دل رکھنے کو ان سے تحائف بھی وصول کرتے رہتے۔ جیسے ایک انقلابی نے اپنی کمپنی کے جملہ وسائلِ( نقل و) حمل ماؤ کی آمدورفت کے لیے مختص کر چھوڑے۔ مگر اس انقلابی نے یہ تحفہ ماؤ تحریک کا جنرل سیکرٹری مقرر ہونے کے بعد پیش کیا۔ مناسب ہے کہ اس بات پہ یقین کر لیا جائے ورنہ ماؤسٹؤں کا قہر و غضب ہمیں بھی بہا کر اسی جانور کی صفوں میں لے جائے گا جسکا داخلہ مسلمان گھروں میں ممنوع ہے۔۔ ماؤ رنگا رنگ پھولوں کا جوبن دیکھنے کے قائل تھے۔ سو قدرتاً طبلِ جنگ بجنے سے قبل متعدد سابقہ رائلسٹوں اور سرمایہ داروں کو تحریک میں شامل ہونے سعادت نصیب ہوئی۔ اس ضمن میں اسی وجہ کے باعث کچھ کہنا مناسب نہیں جس وجہ سے چند سطریں قبل ہمیں اپنے قلم کی مہاریں موڑنا پڑیں۔۔
انقلاب اور اسکے معروضی حالات
انچاس میں ماؤ کو محسوس ہوا کہ انقلابی مطلوبہ سطح کی مہارت بہم پہنچا چکے ہیں اور اپنے کوچ کا وقت آن پہنچا ہے۔ سو ماؤ کے آہنی خود اور زرہ پہ طلائی پانی چڑھایا گیا۔ ماؤ کی سواری کو تیر،تلوار، بھالہ، گولی، بم پروف بنایا گیا۔ اس سواری میں ماؤ کا خصوصی کمرہ تیار کیا گیا جو ماؤ جیسے لیڈر اور عالی دماغ کے شایانِ شان تھا۔ماؤ کے آخری پڑاؤ کے قریب بنی چنگ منگ اور چک چیاؤمن والے محلات کی تزئن و آرائش نئے سرے کی گئی کہ شاہی محل پہ حملہ کرنے سے قبل اچھی طرح سستا سکیں۔ ما اپنے پیروکاروں کے جلو میں اس شان سے چلے کہ وہ شاہی بسواری پہ سوار تھے اور انکے انقلابی اپنے اپنے چھکڑوں پہ لدے تھے۔۔۔ راہ میں جگہ جگہ رک کر انقلابی نعرے بلند کیے گئے اور کئی روز بعد انقلابی ہوا میں تلواریں چلاتے شاہی محل کے سامنے جا اترے جہاں ہر شام کو محفلِ موسیقی سے قبل چیانگ کائی شیک کا استعفیٰ طلب کیا جاتا۔ شام میں اس لیے کہ سارا دن انقلابی دھوپ و حبس ہر دو سے بچنے کے لیے پر فضا مقامات پہ چلے جاتے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عزیز ہم وطنو اور اوورسیز پاکستانیو۔۔۔۔ جیسا کہ آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ انقلاب کی یہ داستاں سراسر لفاظی ہے۔ اور ماؤ کی عظیم اور قابلِ تحسین جدوجہد کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ انقلاب ایسے نہیں آیا کرتے۔ انقلاب میں نہ تو ہر دو گھنٹے کے بعد ٹھیکی لی جاتی ہے اور نہ ہی شاہی محل کے سامنے کھڑے ہو کر چیانگ کائی شیک سے استعفیٰ طلب کیا جاتا ہے۔۔ سب سے بڑھ کر انقلاب ایک اکائی لایا کرتی ہے۔ گروہ در گروہ بٹے ہوئے لوگ صرف خانہ جنگی بپا کر سکتے ہیں۔ انقلاب لشکر مانگتا ہے جلوس نہیں۔ انقلاب خستہ حال نچلا طبقہ لایا کرتا ہے۔ سرمایہ دار اور رائلسٹ صرف مشروط تبدیلیاں لانے کے قائل ہوا کرتے ہیں۔۔۔ انٹلکچوئل طبقہ۔۔۔ ویسے اب تک آپ میری بکواس کا مطلب سمجھ تو چکے ہی ہوں گے