Friday, August 29, 2014

داستان ماؤزے تنگ کی

سینتالیس ( کیا کیجئیے کہ 47 لکھنے پہ کلیدی تختہ رجائیت کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے) کی بہار آتے آتے چیئرمین ماؤ کی سوچ تبدیل ہو چکی تھی۔ عمرعزیز کی پانچ دہائیاں انہیں یہ سبق اچھی طرح پڑھا گئیں تھیں کہ چین کی ترقی ایک مکمل انقلاب اور لانگ مارچ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مگر گراں خواب اور کم نصیب چینی اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ  انکے درمیان کس قدر پڑھا لکھا بلکہ چین کا سب سے پڑھا لکھا آدمی جس کو خدا نے ٹنوں کے حساب سے عزت سے نوازا تھا فقط ان کے لیے خجل ہو رہا تھا۔ جس نے اپنی شادی شدہ زندگی صرف چین کے لیے تباہ کر دی۔ جو چیانگ کائی شیک کی جانب سے عطا کیے گئے اعلیٰ ترین اعزازات واپس لوٹانے کو ہمہ وقت تیار رہتا۔ ماؤ سے پہلے چین کو دنیا آرمینیا کا کوئی قصبہ گردانتی تھی۔ یہ ماؤ ہی تھے جن کی ولولہ انگیز قیادت میں چین نے گھڑ سواری کا عالمی مقابلہ جیتا اور دنیا چین سے روشناس ہوئی۔ غرض پورے چین میں بلکہ پوری دنیا میں خدا نے کوئی ایسا چینی پیدا نہیں کیا جو ماؤ سے زیادہ تعلیم یافتہ اور عزت دار ہو۔ ایسے اعلیٰ دماغ میں جب انقلاب اور لانگ مارچ جیسے خیالات سمانے لگے تو آپ اندازہ نہیں کر سکتے ماؤ نے انقلاب کے کیسے کیسے منصوبے بنائے ہوں گے۔ ہر شب ماؤ انقلابی دستوں کے ساتھ نصف شب تک چیانگ کائی شیک کے محل کا محاصرہ کیے رہتے اسکے بعد گھمسان کی جنگ ہوتی اور تحجد سے ذرا قبل جب ماؤ اپنے خنجر سے چیانگ کائی شیک کا گلا اور چین کے طول و عرض پہ امڈے ظلمت کے بادل کاٹنے لگتے تو کوئی چینی ملا انہیں جگا دیتا۔۔ غرض ہر شب یہ شمع سحر ہونے تک ہزار رنگ میں جلتی اور سحر کے بعد ماؤ انقلاب کے جھمیلوں میں پڑ کر بھول بھال جاتے کہ گذشتہ شب سمر پیلس کا کونسا دروازہ گرایا گیا تھا سو اگلی شب نئے سے محاصرہوتا اور کسی نئے دروازے کو گرایا جاتا۔ یہ ماؤ کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جسکے تحت ماؤ قصداً پچھلی رات والا دروازہ بھول جاتے یوں ہر شب نیا دروازہ آزمایا جاتا۔ ماؤ کے خیال میں حکومت روز روز کے رولے سے تنگ آ کر دروازوں کی مرمت پہ توجہ کم کر دیتی کہ اسے کرپشن بھی کرنا تھی۔ یوں بھی ناز و نعم میں پلا بچارہ چیانگ کائی شیک عالمِ خواب میں انقلابیوں سے ہاتھ پیر بندھوا بندھوا کر اس قدر عاجز آ جائے کہ تخت چھوڑکر چلتا بنے۔ اور ماؤ کی افواجِ قاہرہ دن کی روشنی میں بغیر ایک قطرہ خون بہائے چین فتح کر لیں ۔جیسا کہ ہر عالی دماغ فوراً سمجھ جائے گا یہ ایک عظیم منصوبہ تھا جس کے تاروپور صرف ماؤ جیسا طباع ہی بن سکتا تھا اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو سوائے ماؤ کے کوئی نہیں جانتا تھا۔ انقلابیوں کی تربیت کرنا تھی۔ انکو جدید دنیا کے آدابِ معاشرت سے روشناس کرانا تھا۔ موسیقی جیسی لطیف شے پہ مسرور ردِ عمل ظاہر کرنے کی تربیت بہم پہنچانا تھی۔ سمجھئیے چھ ماہ تو انقلابیوں کو منظم کرنے اور مناسب تربیت فراہم کرنے میں صرف ہو گئے۔ اول اول چینیوں کو جتھے بنا کر اپنا حق چھیننا سکھایا گیا گیا۔ لاکھوں لوگوں کو اس کے بعد انقلابی فوجوں کی تربیت گاہ میں سخت ترین تربیت فراہم کی گئی۔ جہاں انکو چیانگ کائی شیک کی فوجوں سے آمنا سامنا ہونے پہ ننگی گالیاں بکنا سکھایاجاتا۔ ماؤ کی محبت انکے ایمان کا جزو بنا دی گئی۔ اگر کوئی ماؤ کے کسی قول کے جواب میں کنفیوشس تک کا نام لینے کی جسارت کرتا تو انقلابی اسے ایسے جانور کی نسل میں شامل کر دیتے جسے مسلمان بھیڑوں وغیرہ کی رکھوالی کے لیے تو پال سکتے ہیں مگر فرشتہِ رحمت کی نازک مزاجی کے باعث گھروں میں اسکا داخلہ ممنوع ہے۔ 

ماؤ کے انقلاب کے خدوخال/ خال و خد:۔

ماؤ نئے چین کو سب کا ملک بنانا چاہتے تھے۔ اسی سوچ کے تحت جہاں ہزاروں مزدوروں کو اپنی شخصیت کے سحر میں جکڑا وہیں سینکڑوں سرمایہ داروں کو بھی انکے خاندانوں اور دولت سمیت اپنی جماعت کی پہلی صفوں میں جگہ فراہم کرنا پڑی۔ ماؤ کبھی کبھار انکا دل رکھنے کو ان سے تحائف بھی وصول کرتے رہتے۔ جیسے ایک انقلابی نے اپنی کمپنی کے جملہ وسائلِ( نقل و) حمل ماؤ کی آمدورفت کے لیے مختص کر چھوڑے۔ مگر اس انقلابی نے یہ تحفہ ماؤ تحریک کا جنرل سیکرٹری مقرر ہونے کے بعد پیش کیا۔ مناسب ہے کہ اس بات پہ یقین کر لیا جائے ورنہ ماؤسٹؤں کا قہر و غضب ہمیں بھی بہا کر اسی جانور کی صفوں میں لے جائے گا جسکا داخلہ مسلمان گھروں میں ممنوع ہے۔۔ ماؤ رنگا رنگ پھولوں کا جوبن دیکھنے کے قائل تھے۔ سو قدرتاً طبلِ جنگ بجنے سے قبل متعدد سابقہ رائلسٹوں اور سرمایہ داروں کو تحریک میں شامل ہونے سعادت نصیب ہوئی۔ اس ضمن میں اسی وجہ کے باعث کچھ کہنا مناسب نہیں جس وجہ سے چند سطریں قبل ہمیں اپنے قلم کی مہاریں موڑنا  پڑیں۔۔


انقلاب اور اسکے معروضی حالات

 انچاس میں ماؤ کو محسوس ہوا کہ انقلابی مطلوبہ سطح کی مہارت بہم پہنچا چکے ہیں اور اپنے کوچ کا وقت آن پہنچا ہے۔ سو ماؤ کے آہنی خود اور زرہ پہ طلائی پانی چڑھایا گیا۔ ماؤ کی سواری کو تیر،تلوار، بھالہ، گولی، بم پروف بنایا گیا۔ اس سواری میں ماؤ کا خصوصی کمرہ تیار کیا گیا جو ماؤ جیسے لیڈر اور عالی دماغ کے شایانِ شان تھا۔ماؤ کے آخری پڑاؤ کے قریب بنی چنگ منگ اور چک چیاؤمن والے محلات کی تزئن و آرائش نئے سرے کی گئی کہ شاہی محل پہ حملہ کرنے سے قبل اچھی طرح سستا سکیں۔ ما اپنے پیروکاروں کے جلو میں اس شان سے چلے کہ وہ شاہی بسواری پہ سوار تھے اور انکے انقلابی اپنے اپنے چھکڑوں پہ لدے تھے۔۔۔ راہ میں جگہ جگہ رک کر انقلابی نعرے بلند کیے گئے اور کئی روز بعد انقلابی ہوا میں تلواریں چلاتے شاہی محل کے سامنے جا اترے جہاں ہر شام کو محفلِ موسیقی سے قبل چیانگ کائی شیک کا استعفیٰ طلب کیا جاتا۔ شام میں اس لیے کہ سارا دن انقلابی دھوپ و حبس ہر دو سے بچنے کے لیے پر فضا مقامات پہ چلے جاتے۔


ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

عزیز ہم وطنو اور اوورسیز پاکستانیو۔۔۔۔ جیسا کہ آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ انقلاب کی یہ داستاں سراسر لفاظی ہے۔ اور ماؤ کی عظیم اور قابلِ تحسین جدوجہد کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ انقلاب ایسے نہیں آیا کرتے۔ انقلاب میں نہ تو ہر دو گھنٹے کے بعد ٹھیکی لی جاتی ہے اور نہ ہی شاہی محل کے سامنے کھڑے ہو کر چیانگ کائی شیک سے استعفیٰ طلب کیا جاتا ہے۔۔ سب سے بڑھ کر انقلاب ایک اکائی لایا کرتی ہے۔ گروہ در گروہ بٹے ہوئے لوگ صرف خانہ جنگی بپا کر سکتے ہیں۔ انقلاب لشکر مانگتا ہے جلوس نہیں۔ انقلاب خستہ حال نچلا طبقہ لایا کرتا ہے۔ سرمایہ دار اور رائلسٹ صرف مشروط تبدیلیاں لانے کے قائل ہوا کرتے ہیں۔۔۔ انٹلکچوئل طبقہ۔۔۔ ویسے اب تک آپ میری بکواس کا مطلب سمجھ تو چکے ہی ہوں گے

Monday, May 13, 2013

ٹو دا پرائم منسٹر آف فیس بک

ہر چیز کی ایک حد ہوا کرتی ہے۔ گیارہ مئی کے بعد دو دن تک اپنے انصافی دوستوں کے قرض اتارنے کے بعد جب میں سنجیدہ ہو ہی رہا تھا تو ایک عمرانی محترمہ نے اسی مخصوص انداز میں مجھے  روندنے کی کوشش کی جو گذشتہ دو سال سے سوشل میڈیا پہ ان لوگوں کی مخصوص پہچان ہے۔  کم از کم مجھے اپنے نظریات کی بنا پہ اسی قسم کے ردِ عمل کا سامنا رہا ہے۔ ان کی یہ چڑ مشرف تک جا پہنچی ہے، جہاں اسکا نام لیا وہیں یہ پٹواری پٹواری چلانے لگے۔ اور شاید یہی رویہ مجھے بلاگنگ کی طرف واپس لایا ہے۔ ورنہ جاننے والے جانتے ہیں کہ ہر ای میل میں ایک آدھ نامکمل نامکمل کالم، کہانی، انشائیے کا مسودہ نظر ثانی  و ثالث بھیجنے کے باوجود میں بڑی ثابت قدمی سے  بہانے پہ بہانہ گھڑتا چلا جا رہا تھا۔ وجہ وہی، میری نظر میں یوں بلاگ کی مدد سے دو تین لوگوں تک ایک ہی بات پہنچائے چلے جانا اپنے اور قاری کے وقت کا ضیاع ہے۔ مجھ سے بہتر لوگ یہ کام بڑے  اچھے طریقے سے کر رہے ہیں اور انکا  حلقہ قارئین بھی وسیع  ہے سو مجھے یہ سب ۲۰۱۱ سے وقت کا ضیاع ہی لگتا رہا ہے۔ اب بھی میں اپنیا اور اپنے جیسا ہر بلاگ صمیمِ قلب سے وقت کا ضیاع سمجھتا ہوں ، مگر بات یہ ہے کہ یوں تو یونہی سہی۔ ہمارے پاس بیچنے کو کچھ تو ہے۔ چلو جواب ہی دے لیں گے۔ 

تو آئیے دعا کریں خدا عمران خان صاحب کو ایک سیاسی اتالیق عطا کرے۔  اور انہیں اس سے کچھ سیکھنے کی توفیق بھی عطا ہو۔ میرا خان صاحب کے دیوانوں  سے جو حضرت صاحب کی کوتاہ بینی پہ اختلاف ہے وہ جانے دیجئیے اس پہ بعد میں بات کرتے ہیں۔ سردست موصوف کی عظیم الشان حماقت دیکھئیے۔ حضرت صاحب نے خیبر پختونخواہ میں ۳۵ نشستیں جیت لیں مگر یہ جیت انکو اصل سمت میں محرک کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پہلے چوبیس گھنٹے تو حضرت نے سو کر گزار دئیے۔ ورنہ دھاندلی والے پیغامات کے آخر میں صرف پانچ سیکنڈ میں یہ کہا جا سکتا تھا، ہم خیبر پختونخواہ میں اپنے اتحادیوں کی مدد سے حکومت بنائیں گے۔  اسکے بعد مولانا محرک ہوئے اور یوں انکو بھی مجبوراً بیان داغنا پڑا۔  اسکے بعد بھی ابھی تک حضور نے وزیرِ اعلیٰ کا نام نہیں بتایا۔ جبکہ اس ماحول میں موصوف کو راتوں رات محرک ہو کر جماعتِ اسلامی اور آزاد امیدواروں سے یاری گانٹھنی چاہئیے تھی۔ اب ہو گا یہ کہ  جماعتوں کی تو بات ہی چھوڑئیے، صرف آزاد امیدواروں سے فرداً فرداً سودا کرتے ہی جناب اور انکے رفقاٗ کو دانتوں پسینے آئیں گے۔ ہر ایک اپنی نشست کو سونے سے ڈھلی قرار دے کر اسکی پوری قیمت وصول کرے گا۔ وہ تو نواز شریف صاحب نے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکے حقِ حکومت کے بارے میں بیان داغ دیا ورنہ اب تک انکو عزت کے لالے پڑ چکے ہوتے کیونکہ مولانا کی تو ایک  نشست کسی کے قابو میں نہیں آتی یہاں تو وہ ۱۵ پشاور میں  ۶ کوئٹہ میں اور ۳یا  ۴ مرکز میں گانٹھ کر بیٹھے ہیں۔ ( شاید یہی چیز نوز شریف کو بھی روک رہی تھی)۔۔ یہاں آپ کو شریف برادران کا آدھی رات کو پریس کانفرنس کرنا سمجھ میں آئے گا۔ اسی کانفرنس نے سرکاری نتائج آنے سے پہلے ۴ یا ۵ نشستیں انکے گھر پہنچا دی ہیں۔ اور طالع آزما بھی چپکے بیٹھنے پہ مجبور ہو گئے۔ 

حضرت صاحب شاید ابھی تک وزیرِ اعظم والے خواب سراب سے پیچھا نہیں چھڑا سکے۔ پہلے ایک حلقے میں دھاندلی دھاندلی کرتے رہے، وہاں جیت گئے تو سعد رفیق والا حلقہ یاد آ گیا۔ اور  وہاں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے بعد جناب کو ۲۵ حلقوں میں انتخابات دوبارہ چاہئیں۔ حد ہوتی ہے حماقت کی بھی۔ شاید ہاسشمی قصوری اینڈ کو انکو کچھ نہیں سمجھا رہے کیونکہ انکے خواب سراب کی تعبیر معلق پارلیمان وجود میں لائے گی۔ جہاں یہ حکومت کریں یا اپوزیشن، پیپلز پارٹی نما چلیس پچاس پلاوٗں کے ہر حال میں مزے رہیں گے۔ تین چار ماہ بعد انہی پچاس کے قریب نشستوں نے صدرِ محترم کو دوبارہ منتخب کرانا ہے ۔ اور جناب اگر فیس بک لائکس کی بنا پہ ہی آپکا خیال ہے کہ  بلے کو لگنے والے ٹھپے کسی دھاندلی یا غلط فہمی کی وجہ سے شیر پہ لگ گئے تو، دوستو جسٹن بیر نام کا ایک لونڈا اور لیڈی گاگا نام کی ایک لونڈیا کڑوڑوں لائکس رکھتے ہیں فیس بک پہ۔ کیا انکو لا کر وزیرِ اعظم و صدر بنا دیا  جائے؟

Tuesday, September 13, 2011

same old bush--سیم اولڈ بش

 اردو کی بورڈ کی غیر موجودگی میں یہ تحریر لکھی۔

So here I am, with a new yet delicately planed and ruthlessly executed immature stuff. Presuming that you guys had nothing left to do in the name of goodness apart from waiting for words( I would rather say fits) of wisdom showering entire manhood. Or as great men are often referred to along their journey. A thick fat slob testing everybody's patience with mambo jumbo.

There are a couple of good reasons I am almost certain that every single one of those reasons can make you guys start believing in a great deal of goodness behind me switching to English as a language of choice. But its good to be honest, at least sometimes, So, one of them is, I can't see any chance of me touching a new computer for a good while and old one hates Urdu, I can't touch a new one, or to be precise my new machine, mainly because of my stupid insurance policy and credit card issuer. I  mean they just have to think I am an all new and changed person who won't miss any payment(at least for first few months) and that's it. Job is done. Look at it, these guys have just trusted a bunch of thugs and psychos with multimillion dollar packages, i.e aid packages for poor Pakistani people after flood. If they can trust these criminals then what's wrong with me? Can't they give a poor old guy an other chance to change and earn himself some happiness? Oh dear God! this place knows no fairness. No wonder we are doomed as species by natural disasters. These filthy jews, they have risked well being of a whole species by declining poor chappies required finances. And all to protect their so called lending standards.

Saturday, August 13, 2011

کیا پکائیں؟

بولنے اور بولتے ہی چلے جانے کی لت عجیب ہے صاحبو۔ کسی ایسے سے پوچھو جس کی بولتی بند کی یا کرائی گئی ہو۔ جیسے اپنے ایک بہت ہی بڑے شاعر نے کہا ہے عجب دستور زبان بندی تیری محفل میں وغیرہ۔ اقبال بھی اگر دل کی بجائے منہ سے نکالتے تو طاقت پرواز دیکھتے۔ یقین نہ آئے تو ابھی افواہ اڑا کر دیکھ لیجئیے۔ خاکسار کی زبان یعنی کمپیوٹر درجہ شہادت پہ فائز ہونے کے بعد بولتی کی اہمیت خوب ذہن نشین ہوئی۔۔ بلاگر والا بلاگ بھی کمپیوٹر کے ساتھ ہی راہی ملک عدم ہو چکا تھا اور نئی نئی بولتی بند ہونے کے باعث دردِ شکم دردِ زہ کی شدّت کو پہنچتے پہنچتے رہ جاتا تھا۔ یکایک یار لوگوں نے گوگل ٹیکسٹ ایڈیٹر کو الو بنانے کا طریقہ دریافت فرما لیا اور دردِ شکم سے نجات کی امید ہونے لگی ہے۔ آپ میں سے اکثر نے انور مسعود کی شاہکار نظم "آج کیہہ پکائیے" سن رکھی ہوگی۔ اگر نہیں سنی تو مجھ پر یقین کیجئیے عمدہ نظم ہے۔ اگر یاد ہوتی تو پیش کرتا۔ شاعری کے بے محل ذکر سے یہ بتانا مقصود تھا کہ مجھ پہ بھی اس کثیرالعیال خاتون کی طرح جو ہفتے عشرے بعد کہیں سے لوٹی ہو اور ایک آدھ مہمان بھی بغل میں داب رکھا ہو، آج کیا پکائیں کی آفاقی کیفیات کا نزول ہورہا ہے۔


ازمنہ قبل از دردِ شکم میں یار لوگوں نے کھینچ کھانچ کالم نگاری کی کھاٹ پر ڈال دیا تھا۔ جو کہ فی الحال عاجز کی رسائی سے باہر ہے۔ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔۔ ایک رینگتے ہوئے مزاح نگار کو کالم نگار بنانے پہ پردہِ غیب سے انہی علامات کا نور ظہور ہوا کرتا ہے۔ مائل بہ موبائل ہیں مگر الفاظ ہاتھ سے پھسلے جا رہے ہیں۔ کالم لکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو مضمون بننے لگتا ہے اور مضمون شدت سے کالم پسند ہو رہا ہے۔ سوچ رہا ہون تحریکِ کالمان بلاگستان کی بنیاد رکھی جائے، آخراپنے الگ صوبہ اور اپنی الگ جماعت کا مطالبہ پیش کرنا آئینی حق اور آج کل کا فیشن ہے۔ میرے ٹوٹے پھوٹے کالم نما قلم پاروں کی اولین اور فی الحال آخری قاری محترمہ رافعہ کے بقول خاکسار بے ادبی کی اس ذیل میں نام کمانے کی خاصی صلاحیت رکھتا ہے۔ دریں چہ شک۔ پوت کے پاؤں پالنے وغیرہ میں۔۔ مگر ابھی تک میرا نام نیم پلیٹ پر ہی روشن ہو سکا ہے۔ چلتا ہے۔۔ رازی نے قریباً ادھیڑ عمری میں طب کی جانب رجوع کیا۔ نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز۔۔ اگرچہ خاکسار کا رجحان فکشن کی جانب تھا۔۔ مگر بڑوں کی بات ماننی چاہیے۔


آج چودہ اگست ہے۔ اسی پہ خوش ہو لیتے ہیں۔ چینیوں نے ایک سیٹلائیٹ بنا کر چھوڑ دیا۔ جس کو بنتے ہوئے سپارکو والے دیکھتے رہے۔ جشن آزادی کا تحفہ پاکستانی سیارہ۔ اللہ اکبر۔ پاکستان زندہ باد۔۔ یہ نصیب۔۔واللہ۔ لوٹنے کی جا ہے۔ کاش ہمارے ہونہار انجنیئیرز یہ کام پاکستان میں کر سکتے۔ مثبت پاکستان کا مطلب منفی ہندوستان لینے والے احباب جب پڑوسی کے کسی تجربے کی ناکامی پر ناچتے ہیں تو جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے یہ کام اپنے ملک میں کیا۔ اپنی افرادی قوت کی تربیت کا سامان بہم پہنچایا۔ ادھر ہمارے۔۔ لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور۔ چین ہمارا سرپرست نہ بنتا تو شائد ہم آج بغلیں بجانے کے بھی قابل نہ ہوتے۔۔ مجھے تو اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کی نوکری پہ اگر کبھی لات ماری۔۔ یا یوں کہیے کہ امریکہ کے معاشی حالات اتنے بگڑے کے مفت کے ملازم کی بھی جا نہ رہی تو ہم شائد چینی کو سرکاری اور دفتری زبان بنا لیں گے۔ بطور قوم ہمارا شعور شائد سو چکا ہے۔ ہم اگلی نسلوں کو صرف نفرت اور تنگ نظری ترکے میں دے رہے ہیں۔ ہم ذہن کی تمام بتیاں گل کرکے اپنی سوچ سے دنیا منور کرنا چاہتے ہیں۔ اور قومی غیرت کے کیا کہنے۔ بقول ایک مہربان۔۔ سبحان اللہ ماشاءاللہ کانفرنس اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ فرینڈز آف پاکستان جیسے گروہوں کو ہم باوا کے منشی سمجھ بیٹھے ہیں۔ ادھر کچھ ہوا ادھر کشکول بردار چل پڑتے ہیں۔ دے جا سخیا راہ خدا۔۔


آئیے اس دن خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارا شعور جاگ اٹھے۔ ہم انسان کی قدروقیمت سے آگاہ ہو جائیں۔ ہم اپنی اگلی نسلوں کو کم از کم بھبھسے ہوئے ذہنوں کا ترکہ مت پہنچائیں۔
مولا شہرِگلاب سلامت

Thursday, June 23, 2011

مسلسل رائیگانی کا سفر ہے

مسلسل رائیگانی کا سفر ہے۔۔

سینتالیس میں ہم آزاد ہوئے اور اڑتالیس میں غلام۔ 
گورے گئے تو کالے آ گئے۔
کالے گئے تو کالے بوٹ۔
گورا صاحب ہمیں کالا صاحب کی گود میں ڈال گیا اور کالا صاحب نے کالے بوٹوں کو بیچ ڈالا۔