از مائرہ علی
۔اب اپنی حالت یاد آتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت اپنی حالت کسی حد تک ہاتھی کو رکشا میں سوار کروانے والی ہی جیسی تھی۔ایسے میں اپنا کوچنگ سینٹر یاد آیا۔ میں دوسرے دن ہی سینٹر پہنچ گئی۔ پروگرامنگ کے سر سے ملاقات بھی کر لی اور ٹائم بھی سیٹ کر لیا۔ اب میں ہفتے میں تین دن سر سے پڑھنے جانے لگی۔ ایسا نہیں تھا کہ یونی کے سر اچھا نہیں پڑھاتے تھے بلکہ سارا مسئلہ تو میرے دماغ کے اسکریوز کے ساتھ تھا جو بار بار پھسل پھسل کر میرے ہاتھوں میں تشریف فرما ہو جاتے تھے۔
میں سینٹر میں جن سر سے پڑھنے جاتی تھی وہ بہت باتونی تھے۔ ان کی ایک ٹرک تھی۔ جیسے ہی ان کو لگتا تھا کہ اسٹوڈنٹ بور ہونا شروع ہو گیا ہے وہ کوئی نا کوئی قصہ چھوڑ دیا کرتے تھے۔
اسی طرح ایک دن جب ان کو لگا کہ میں کچھ بور ہو رہی ہوں تو انھوں نے سینٹر کے ایڈمسنٹریٹر صاحب کا قصہ چھوڑ دیا۔ ایڈمنسٹریٹر صاحب ہمیں انٹر میں فزکس پڑھایا کرتے تھے۔ میرے ان آئی ٹی کے سر نے بھی ان سے ہی پڑھا تھا۔ایڈمنسٹریٹر صاحب کو غصہ بالکل نہیں آتا تھا۔ ایک تو یہ میری بہت بری عادت ہے کسی اور بات کے بیچ کوئی اور بات چھوڑ دیتی ہوں اور پھر یاد کرتی رہتی ہوں کہ اصل بات کیا تھی۔ خیر تو بات یہ ہو رہی تھی کہ میرے آئی ٹی کے سر نے کہا کہ ایڈمنسٹریٹر صاحب کی یہ بات ان کو بہت اچھی لگتی ہے کہ وہ کسی ٹیچر کو یہ نہیں کہتے کہ تم اپنا ایسا اسٹائل آف ٹیچنگ بناو بلکہ اکثر و بیشتر کچھ ٹپس دیتے رہتے ہیں۔ میرے آئی ٹی کے سر کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ شکل سے بہت ہنسی مذاق کرنے والے لگتے تھے بلکہ وہ بہت مذاق کرتے بھی تھے۔ اب ایسے ٹیچر کو تو اسٹوڈنٹس ٹیچر کم، اپنا فرینڈ زیادہ سمجھ لیتے ہیں اور سر پر چڑھ کر طبلہ بجانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے میں سر نے کہا کہ وہ ایڈمنسٹریٹر صاحب کی بکری مار دو والی ٹیکنیک آزماتے ہیں۔ ان کو جب لگتا ہے کہ کلاس بے قابو ہونے والی ہے تو سب سے معصوم اسٹوڈنٹ جو کچھ بھی نا کر رہا ہو یا کر رہی ہو کو بری طرح جھاڑ دیتے ہیں یا پھر کلاس سے باہر نکال دیتے ہیں۔ اور جب کلاس اوور ہو جاتی ہے تو اس کو بلا کر اس کے آنسو بھی اپنے ہاتھ سے صاف کرتے ہیں۔اور سر تو آگے جانے کیا کیا بولتے رہے پر مجھے ہمارا بہت جگہ بکری بننا یاد آگیا۔ پر ایڈمنسٹریٹر صاحب جب بھی مجھے بکری بناتے تھے تو دوسرے دن ضرور ہی میری کسی نا کسی بات پر حوصلہ افزائی کر دیا کرتے تھے اور میں بہت خوش ہو جاتی تھی۔ بلکہ جس جس کو بکری بناتے تھے دوسرے دن اس کی ضرور اس کی واہ واہ کرواتے تھے۔مجھے آج پتا نہیں کیوں لگا کہ ہم سب بکریاں ہیں پر ہمارے سیاستدان، لیڈر اور جرنیل ہمارے آنسو پوچھنا نہیں جانتے وہ صرف بکری مارنا جانتے ہیں۔اور صرف لیڈر، جرنیل اور سیاستدان ہی کیوں آس پاس موجود شکاری بھی تو صرف بکری کو ہی مارنا پسند کرتے ہیں ایزی ٹارگٹ جو ہوئی! یہاں تک کہ کبھی کبھی شیر کا شکار کھیلنے کے لئے بھی ان کو بکری کی ہی ضرورت محسوس ہوتی ہے
کبھی کبھی بہت سے کمزور جانور مل کر طاقتور جانور کا بھگا بھی دیتے ہیں۔
ReplyDeleteکیا خیال ہے ہم بکریاں مل جائیں؟
:)
عامر بھائی پسندیدگی کا شکریہ۔
ReplyDeleteمسئلہ یہ ہے کہ ہم اس مقام سے بہت آگے آ چکے ہیں۔ یہ اس وقت کی کہانی ہے جب میں یونی میں تھی۔ اب بکریوں کو ملنے کے لیے بھی بھیڑیوں سے پرمٹ لینا پڑتا ہے کیونکہ بھیڑئیے ہی چرواہے کے روپ میں موجود ہیں۔ اللہ ہمارے حال پہ رحم فرمائیں۔ کیونکہ بکریوں کا جینا دن بدن مشکل ہو رہا ہے۔
بہت ہی عمدہ تحریر سائرہ آپی
ReplyDeleteاپنا حال تو شاید بکری مارنے سے بھی آگے نکل چکا ہے۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔